پچھلے دنوں نیٹ فلکس پر انڈین ہدایت کار امتیاز علی کی ایک فلم نے دھوم سی مچا دی۔ فلم کا نام ہے، ’امر سنگھ چمکیلا‘ جو بھارتی پنجاب کے لوک گلوکار امر سنگھ چمکیلا کی فنی زندگی پر مبنی ہے۔
امر سنگھ چمکیلا اور انکی بیگم امر جوت کور مل کر گاؤں گاؤں اپنے کنسرٹ یا لوکل زبان میں اکھاڑوں پر گایا کرتے تھے۔ چمکیلا انتہائی سادہ لو انسان تھے لیکن اپنے بچپن میں جو گفتگو انہوں نے گھروں کی عورتوں کے درمیان سنی اور جو ٹپے ان پر بنتے تھے، وہی چمکیلا کے گانوں کے بول بھی بنے۔ یہ بول مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ ہی فحش بھی تھے۔
چمکیلا ایسی شاعری، ہم عصری رقابت اور اپنی مقبولیت کی بنا پر متنازعہ ہوتے چلے گئے اور صرف 27 برس کی عمر میں اپنی بیوی امر جوت سمیت نا معلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے۔
پاکستان میں بھی لوک موسیقی نے ایک مقبول دور دیکھا لیکن ایک واضح فرق جو میرے مشاہدے میں رہا ہے وہ یہ کہ ہماری طرف یہ فنکار ہلکے پھلکے گھریلو موضوعات اور صوفی مضامین کو اپنے طرز سے گاتے رہے ہیں۔ چاہے وہ عنایت حیسن بھٹی ہوں، جن کی فلمیں اور گانے اپنی مقبولییت کی بنا پر آج بھی لوک موسیقی کے قدردانوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ یا، خیبر پختونخوا کی زرسانگہ ہوں، بلوچستان کے استاد جمن ہوں، پنجاب کے طفیل نیازی، شوکت علی، عالم لوہار یا سندھ سے علن فقیر، مائی بھاگی، عابدہ پروین حمیرا چنا یا شازیہ خشک ہوں۔ اسی طرح چولستان کی ریشماں کو ہم کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔
سرائیکی بیلٹ سے بھی پٹھانے خان اور عطا اللہ عیسی خیلوی جیسے قد آور لوک گلوکار و موسیقاروں کا طوطی بولتا ہے۔ یہ سب ستارے اس وقت اپنی چکا چوند سے ہمارے ٹی وی سکرینوں کو جھلملایا کرتے تھے جب تک پرائیوٹ ٹی وی چینلز کی دوڑ لگنا نہیں شروع ہوئی تھی۔ دوڑ میں ٹھراؤ کم اور رفتار کا کھیل ہوتا ہے شاید اسی لیے ہمارے لوک فنکار یہ فاصلے کم ہی طے کرتے نظر آئے۔ میوزک کمرشل ہوا اور مٹی سے جڑے یہ فنکار اپنے بھاؤ تاؤ میں جیسے شرماتے رہے۔ سچا فنکار فن کی قیمت پر اپنی بولی نہیں لگا پاتا۔۔۔
منجھے ہوئے لوک فنکار اور جناب طفیل نیازی کے صاحبزادے بابر نیازی نے موجودہ دور میں فوک میوزک کے بارے میں کہا کہ، “اب ملک میں ہر رجحان خرابے کی طرف مائل ہے تو موسیقی کیسے اس کا شکار نہ ہو۔ شاعری و موسیقی کا شعور سوشل میڈیا کے دور میں ماند سا پڑ رہا ہے۔ آج کی نوجوان نسل فیض صاحب کے کلام ’گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘ کو بھی علی سیٹھی کا ہی کلام سمجھتی ہے، کیونکہ علی سیٹھی اس کو گا چکے ہیں، یا قوالی اور لوک گیت کے فرق کو بھی نہیں سمجھتی”۔ کسی قوال سے اگر لوک گیت کی فرمائش کر دی جائے یا بابر نیازی صاحب سے قوالی کی تو اچنبے کی بات نہیں۔
موسیقی اب صرف جیسے کنسرٹس تک محدود ہو گئی ہو یا کوک سٹوڈیو کے سیزن میں سننے کو ملتی ہے۔ ماضی میں ٹی وی پر موسیقی کے پروگرام ہوا کرتے تھے، جن میں گیت، لوک گیت اور غزلیں شامل ہوتی تھیں۔ رات گئے کے پروگراموں میں ’راگ رنگ اور قوالی کی محفلیں سنی جا سکتی تھیں‘ اب ٹی وی سکرینز کی تمام تفریح، مارننگ شوز، ڈراموں اور ککنگ شوز تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔
پاکستان ٹیلیوژن کے منجھے ہوئے موسیقار و اداکار ارشد محمود بھی آج کل اپنے یوٹیوب چینل ’موسیقی‘ پر ہر ماہ 2 گیت یا غزلیں اپ لوڈ کرتے ہیں۔ انکے بقول یہ وہ کام ہوتا ہے جو پہلے کبھی نہیں پیبلش ہوا ہو۔ ارشد محود اور یوٹیوب چینل اس بات کی طرف اشارہ ہیں کہ وقت کے چلن کے ساتھ اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ ’کوک سٹوڈیو‘ کے توسط سے موسیقی، خاص کر لوک موسیقی جس طرز کے امتزاج کے ساتھ بنائی جا رہی ہے، وہ اچھا کام ہے۔ لیکن اس میں جدت یا فن کی باریکیوں پر ابھی کافی کام کیا جا سکتا ہے۔
فیوژن میوزک کے حوالے سے ارشد محمود کا کہنا ہے کہ ’فیوژن میوزک کی تاریخ 1947 کے بٹوارے سے قبل کلکلتہ سے ملتی ہے۔ پاکستان میں اس صنف میں کام کافی دیر سے شروع ہوا۔
ان کے مطابق لوک فنکاروں کے طرزِ گائیکی سے کہیں کہیں چھیڑ چھاڑ اس کی روح کو نقصان بھی پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے بھارتی لوک فنکار’چمکیلا‘ کی زندگی پر بنی فلم کی موسیقی پر روشنی ڈالی۔ ان کا ماننا تھا کہ فلم ٹھیٹھ پنجابی ماحول کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کے میوزک میں پنجاب کی دھرتی کی وہ مٹھاس نہیں ملتی جو اس کا اصل رنگ ہے۔
دیکھا جائے تو فلم چمکیلا بھارتی پنجاب میں بنی ایک داستان ہے لیکن موسیقی جنوبی بھارت کے مشہور موسیقار اے آر رحمان نے دی ہے جو شاید فنی اعتبار سے وہ انصاف نہیں کر سکے ہیں۔ فلم کے گانوں میں اپنی سی کشش تو ہے لیکن جیسے ’لسی کے گلاس پر ڈوسے کی چادر تان دی ہو‘۔(ڈوسہ جنوبی بھارت کی ایک باریک پرت والی روٹی ہوتی ہے)۔
صوبہ سندھ کی باوقار گلوکارہ حمیرا چنا اور بابر نیازی دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اور سوشل میڈیا کی بمباری میں لوک موسیقی اور فنکار دونوں ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس وقت ’کوک سٹوڈیو‘ کی فیوژن پروڈکشنز جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوں۔ دونوں ہی گلوکاروں نے پرانی قدروں کو یاد کرتے ہوئے اب فن کی قدردانی میں اس تاثیر کی کمی کو اجاگر کیا۔
ڈان اخبار کے سابق سپورٹس ایڈیٹر رشاد محمود جو بھارتی نامور گلوکار طلعت محمود کے بھتیجے بھی ہیں اور پاکستانی موسیقی اور گلوکاروں کے پرستار بھی، وہ فوک میوزک اور کوک سٹوڈیو کی جڑت کو سراہتے ہیں لیکن پاکستان کی لوک موسیقی کی زریخیزی سے بھی اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ اپنی مٹی سے جڑے فنکاروں کی ہم اس طرح پزیرائی نہیں کر سکے جو دوام ’پوپ میوزک ‘ کو بخشا گیا۔ انکا ماننا تھا کہ استاد جمن کی گائیکی سے علی ظفر وہ انصاف نہیں کر سکے جو کوک سٹوڈیو میں ’یار ڈادی عشق آتش‘ کو فیوژن سے جوڑ کر کیا گیا۔ اس کی وجوہات شاید علاقائی ثقافتوں پر ریاستی غلبہ و سرپرستی دونوں ہو سکتے ہیں۔
رشاد محمود کا کہنا تھا کہ ’چمکیلا‘ جیسے گائیک ہماری لوک موسیقی میں ضرور ہوں گے لیکن وہ پہچان نہیں مل سکی جس کے وہ حقدار ہیں۔
ارشد محمود اور حمیرا چنا کا بھی یوٹیوب چینل ہے۔ ایسے گائیک اور موسیقار جن کے پاس کام اور پزیرائی کو از خود آنا چاہیے وہ جب یوٹیوب چینلز میں اپنی بقا تلاش کرنے لگیں تو فن و ثقافت کے رکھوالوں کے کان پر جوں رینگنی چاہیے۔