سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہماری عدالتی تاریخ قابل فخر نہیں ہے، ہمیں اپنے ادارے میں اصلاحات کرنا ہوں گی، لیکن یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ عدالتی نظام نہیں چل رہا، عدلیہ کی آزادی کے لیے یہی بہتر ہے کہ فرد واحد سے نکل کر سسٹم کی طرف جائیں۔
مزید پڑھیں
اسلام آباد میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے بڑی خدمات ہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کرنا ہر کسی کا حق ہے، آئین کے مطابق عدلیہ بالکل آزاد ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اعلیٰ عدلیہ میں روز 4 ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، نچلی عدالتوں میں روز ایک ہزار کیس فائل ہو رہے ہیں۔ عالمی سطح پر 10 لاکھ افراد پر 90 جج ہوتے ہیں، ہمارے یہاں 10 لاکھ افراد پر 13 ججز ہیں اور ہمیں 90 ہزار ججز چاہییں۔
’برازیل میں سب سے زیادہ بجٹ عدلیہ کا ہے، فوج کا دوسرا نمبر ہے‘۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ میں کرپشن کومکمل ختم ہونا چاہیے، جو جج ڈیلیورنہیں کرتا اسے نکال باہرکرنا چاہیے، کرپشن پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں کیس منجمٹ سسٹم بہت ضروری ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ کیس فلاں جج کے پاس لگا دو اور وہ فلاں جج کے پاس، یا پھر یہ فلاں کا بیٹا ہے اور یہ فلاں کا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اداروں میں اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے، ہمیں اپنے ادارے میں بھی اصلاحات لانی ہوں گی، آئین کہتا ہے جوڈیشری آزاد اورخود مختار ہوگی۔ جب تک ایک سسٹم کے تابع نہیں ہوں گے، آگے نہیں بڑھ سکتے۔
’سیشن جج سے پوچھا جائے کس کیس میں مسئلہ آرہا ہے تو نہیں بتا سکتے، ہمارا 142ملکوں میں سے 130نمبر ہے، یہ کوئی اچھا تاثر نہیں ہے، ججز کے طریقے کار کو دیکھنے کی ضرورت ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ پر سیاہ دھبے ہیں، ہمیں اے آئی سسٹم پر آنا ہوگا، تب ہی مسئلے حل ہونگے، ٹیکنالوجی کو لائیں گے تو مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہوگی، یہ بات درست ہے کہ ہمارا سسٹم سست ہے، ججز سفارشات پر نہیں میرٹ پر بننے چاہییں۔