فروی 8 کے انتخابی نتائج کے بعد ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرنے والی پاکستان تحریک انصاف الجھنوں کا شکار ہوگئی۔ اندرونی اختلافات سر اٹھانے لگے جس کے بعد اب تک پارٹی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ آئے روز اختلاف رائے اور متضاد بیانات سامنے آنے لگے۔ تبصرے ہونے لگے کہ عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ بوکھلاہٹ میں آئے روز ترجمان تبدیل ہونے لگے۔ بعض رہنماؤں نے الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا۔
کچھ روز کے لیے مسلم لیگ نواز اور ان کی سب سے بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی موقع سے خوب فائدہ اٹھایا اور تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنے کے طعنے دینے لگے۔ اور تحریک انصاف کے اختلافات موضع بحث بنے رہے۔
مگردوسرے ہی لمحے مسلم لیگ نواز کے رہنما بھی پیچھے نہ رہے اور الیکشن پر سوالات اٹھانے لگے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے ان رہنماؤں کو مشورہ دیا کہ وہ ایسے بیانات دینے سے اجتناب برتیں جس سے پارٹی کے موقف کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو۔
مگر سلسلہ رکنے کے بجائے مزید آگے تب بڑھا جب عرفان صدیقی اور جاوید لطیف نے کہاکہ نواز شریف وزیراعظم بننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ جس پر پارٹی پر تنقید شروع ہوگئی کہ الیکشن سے قبل تو عوام کو بتایا گیا تھا کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنیں گے اور نعروں والے بڑے بڑے بینرز اور بورڈ بھی نصب کیے گئے تھے۔ یہ بھی تاثر ابھرنے لگا کہ اگر وہ وزیراعظم کا عہدہ قبول نہیں کرنا چاہتے تھے تو کیا عوام اور بالخصوص پارٹی کے ووٹرزکو دھوکے میں رکھا گیا۔
عرفان صدیقی کے بیان کے بعد رانا ثنااللہ بھی میدان میں آگئے اور ان کے بیان کی سختی سے تردید کی کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نواز شریف کی چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کی کوئی خواہش نہیں تھی اور نہ ہی عوام کے ساتھ کوئی دونمبری کی جاسکتی ہے۔ ’کسی نے کہا کہ بعض طاقتیں اور شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے وزیراعظم بننے میں رکاوٹ تھے۔ پھر پارٹی کی طرف سے بیان آیا کہ نوازشریف نے خود اپنے بھائی شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ دینے کا اعلان کیا‘۔
بات پھر بھی سمجھ سے باہر ہے کہ نواز شریف لندن سے چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے نہیں آئے تھے تو پھر الیکشن مہم میں انہیں اگلا وزیراعظم بننے کا تاثر کیوں دیا گیا۔ اگر وہ خود وزیراعظم بننا چاہتے تھے تو پھر انہوں نے اچانک شہباز شریف کو دوبارہ وزارت عظمیٰ دینے کا اعلان کیوں کیا؟
تاہم پارٹی کے چند رہنما نجی محفلوں میں کھل کر کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کو کسی صورت اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ نہیں بننا چاہیے تھا بلکہ حکومت لینے سے صاف انکار کردینے میں ہی بہتری تھی۔ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننے سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا اور الیکشن میں اس کی سیاسی قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔
پارٹی کے اندر دھڑے بندی واضح طور پر نظر آنے لگی ہے۔ نواز شریف کا حامی دھڑا اب مطالبہ کررہا ہے کہ نوازشریف کو مسلم لیگ نواز کی قیادت دوبارہ سنبھالنا ہوگی جس کے لیے شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانا ہوگا۔ رانا ثنااللہ نے اعلان کیا کہ مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھالنے کے بعد نواز شریف پارٹی کو درپیش مشکلات سے نکالیں گے۔
نوازشریف کے حامی پارٹی کے اس دھڑے کا خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہی پارٹی کی ساکھ کو بہتر بنا سکتا ہے۔ یوں تو شریف خاندان ایک عرصے سے وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی سیاست کررہا ہے، ایک بھائی فوج کا مخالف اور دوسرا اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا۔ شاید اب فوج مخالف دھڑے کا خیال ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں تحریک انصاف نے جتنی شدت سے فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اب عمران خان کے سامنے نوازشریف کے بیانیے کی وقعت کم ہوتی جارہی ہے جس کا سدباب نہ ہوا تو آنے والے سالوں میں پارٹی کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے گرتا جائےگا۔ حکومت ملنے کے باوجود ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ نواز ایک مرتبہ پھر ایک دوراہے پر کھڑی ہے۔