سینئر صحافی و تجزیہ کار عامر غوری نے کہا ہے کہ جب تک عوام کا نام لے کر بنائی جانے والی حکومتیں کوئی اور گرا دے گا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے، اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو گرانے کے لیے عمران خان کو لایا تھا مگر تجربہ ناکام ہوگیا۔
’وی نیوز‘ کے پروگرام ’سیاست اور صحافت‘ میں گفتگو کرتے ہوئے عامر غوری نے کہاکہ انتخابی عمل بالکل شفاف ہونا چاہیے، چاہے کوئی بھی اقتدار میں آجائے۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو کس طرح بنایا جاتا ہے اور پھر سینگ اڑانے پر کیسے نکالا جاتا ہے ہمیں سب معلوم ہے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں نے اپنے لیے ضرورت سے زیادہ چیلنجز پیدا کرلیے ہیں۔
عامر غوری نے کہاکہ اس وقت ملکی معیشت کا برا حال ہے، ہم نے پیسا بنانے والے لوگوں کو گناہگار سمجھ لیا ہے، دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جسے صادق اور امین لوگ چلارہے ہوں۔
’طاقتور لوگ چاہتے ہی نہیں کہ معیشت بہتر ہو‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ہماری سیاست اور اس کو چلانے والے طاقتور لوگ چاہتے ہی نہیں کہ معیشت بہتر ہو۔ ’کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے ریجن کے ممالک کے ساتھ تجارت نہ کرے اور ہم بالکل ایسا ہی کررہے ہیں، انڈیا کے ساتھ اگر ابھی تعلقات بہتر نہیں ہیں تو کبھی تو بہتر ہو جائیں گے‘۔
عامر غوری نے کہاکہ ہمسائے کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سی پیک کے منصوبوں پر بھی کام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ ’سائل کو صرف بیان کرتے رہیں گے اور حل کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو بات نہیں بنے گی۔‘
سینئر صحافی نے کہاکہ صحافیوں کے لیے پاکستان میں صورتحال ماضی جیسی ہی ہے، جب پاکستان کے حالات بہتر نہیں ہورہے تو صحافت کے حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں۔
نواز شریف کے دور حکومت میں عامر غوری کے ساتھ کیا ہوا؟
عامر غوری نے کہاکہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب وہ جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ تھے تو بہت مشکل حالات دیکھے، رات کے وقت ٹیلیفون کرکے فیملی کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ ’اپریل 1998 میں دفتر جاتے ہوئے 5 سے 6 لوگوں نے انہیں گاڑی سے اتار کر تشدد کا نشانہ بنایا۔‘
تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
تعلیم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عامر غوری نے بتایا کہ ان کے والد سول سروس میں تھے اس لیے پاکستان کے مختلف علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے قانون اور پھر لندن یونیورسٹی سے عالمی سیاست میں ڈگری حاصل کی۔
انہوں نے سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے باوجود جوائننگ نہیں دی اور پھر بحیثیت وکیل لاہور میں پریکٹس شروع کردی۔
وکالت کو کیوں خیرباد کہا؟
عامر غوری نے بتایا کہ بطور وکیل تقریباً ڈھائی سال تک پریکٹس کے دوران بعض اوقات ججوں کے ریڈرز کہتے تھے کہ ’مک مکا‘ ہی کرلو، جس کی وجہ سے اس شعبے کو خدا حافظ کہہ دیا۔
وکالت کی پریکٹس چھوڑنے کے بعد انہوں نے میدانِ صحافت میں قدم رکھتے ہوئے ’دی نیشن‘ سے آغاز کیا اور کچھ عرصہ بعد ’فرنٹیئر پوسٹ‘ کو ڈیسک پر جوائن کرلیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد وہ دی نیوز میں چلے گئے اور پھر 2001 میں اخبار چھوڑ کر لندن میں اے آر وائے نیوز چینل سے وابستہ ہوگئے اور 2005 میں جیو نیوز جوائن کرلیا۔