جب شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کی قسط ٹیلی وژن پر چلتی تھی تو بڑے شہروں کی سڑکیں سنسان اور چھوٹے قصبوں کی زندگی سکوت میں تبدیل ہوجاتی تھی اور آج شوکت صدیقی کو یاد کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر وہ حیات ہوتے 100 برس کے ہوچکے ہوتے۔
معروف ادیب اشفاق احمد لکھتے ہیں ’جب پاکستان ٹیلی وژن کے کراچی اسٹیشن سے اس ناول کی کہانی پر مبنی سیریل کا سلسلہ شروع ہوا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دنیا کے مشہور سلسلہ وار پروگراموں کی طرح پاکستان کا یہ سیریل شہرت عام حاصل کرکے فنا کے چکروں سے نکل کر لازوال ہوجائے گا۔ لوگوں کو اس کے مکالمے حفظ ہوجائیں گے اور جس روز اس کی قسط چلا کرے گی بڑے شہروں کی سڑکیں سنسان اور چھوٹے قصبوں کی زندگی سکوت میں تبدیل ہوجایا کرے گی۔ اسی طرح سینیما گھروں کی روشنیاں ماند اور ٹی وی سیٹس کے گرد چہروں کی ضیائیں روشن تر ہوجایا کریں گی۔ محض اس سیریل کے زور پر کراچی اپنے پورے زور سے ابھرا اور مختصر وقفے میں لمبی جست لگا کر بامِ عروج پر پہنچ گیا۔ اس سیریل نے کراچی کو بہت پیچھے سے بہت آگے لاکھڑا کیا‘۔
یہ ناول خدا کی بستی تھا اور زمانہ تھا 1969ء، جب پاکستان ٹیلی وژن کے پروڈیوسر عشرت انصاری نے خدا کی بستی کوچھوٹی اسکرین پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سیریل 26 اقساط پر مشتمل تھا اور جولائی 1969ء سے جنوری 1970ء تک پیش کیا گیا تھا۔
کراچی کے پس منظر میں لکھے گئے اس ناول میں قیامِ پاکستان کے بعد کراچی کے سماجی مسائل کی بہت خوبصورت منظر کشی کی گئی تھی۔ اس ناول کے کردار راجہ، نوشہ، سلطانہ اور نیاز کباڑیہ اردو کے زندہ جاوید کردار بن گئے۔ خدا کی بستی میں قاضی واجد، ظفر مسعود، توقیر فاطمہ، ذہین طاہرہ، ظہور احمد، ظفر صدیقی، محمد یوسف اور افضال سید نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
سیریل کے دوران توقیر فاطمہ کا انتقال ہوگیا تو ان کا کردار مسرت صحافی نے ادا کیا۔ یہ سیریل 1974ء میں ایک مرتبہ پھر پیش کیا گیا۔ اس مرتبہ نوشہ کا کردار ظفر مسعود نے اور سلطانہ کا کردار منور سلطانہ نے ادا کیا تھا۔ نجی ٹیلی وژن اسٹیشنز کے قیام کے بعد یہ سیریل ایک نجی پروڈکشن ہاؤس نے بھی تیار کیا، اس مرتبہ بھی یہ سیریل بہت پسند کیا گیا۔
شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے والد مولوی الطاف حسین اور والدہ ننھی بیگم کی 7 اولادوں میں چھٹے نمبر پر تھے۔ مولوی الطاف حسین پہلے پولیس کے محکمہ سے وابستہ تھے مگر پھر انہوں نے خود کو محکمہ کے ماحول سے ہم آہنگ نہ پاکر استعفیٰ دے دیا اور ذاتی کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔ وہ شوکت صدیقی کو حافظ قرآن بنانا چاہتے تھے اور ایسا ہوا بھی، مگر 13 پاروں کے حفظ کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔
گلزار جاوید کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شوکت صدیقی نے بتایا کہ ’میرے والد کو بھی مطالعے کا شوق تھا، ان کے پاس کتابوں کا بہت اچھا ذخیرہ تھا جن سے میں برابر فیضیاب ہوتا رہا اور یوں میں نے لڑکپن ہی میں عبدالحلیم شرر کے فسانہ آزاد، ڈپٹی نذیر احمد کے تمام ناول، فیاض علی ایڈووکیٹ کے ناول شمیم اور انور، منشی پریم چند کے ناول گئودان، میدانِ عمل اور چوگان ہستی اور شبلی نعمانی کی الفاروق اور ایسی ہی دوسری ادبی اور علمی کتابیں اور طلسم ہوش ربا اور داستان امیر حمزہ جیسی واہیات اور لغو داستانیں بھی پڑھ ڈالی تھیں۔ ان کے علاوہ نیاز فتح پوری، سجاد حیدر یلدرم، سلطان حیدر جوش، منشی پریم چند، علی عباس حسینی اور ڈاکٹر اعظم کریوی کے افسانوں کا مطالعہ بھی کیا۔ ان کتابوں نے میری ذہنی تربیت میں اہم کردار ادا کیا‘۔
سنہ 1950ء میں شوکت صدیقی پاکستان آگئے، اس وقت وہ لکھنؤ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کرچکے تھے اور اردو ادیبوں کے ساتھ ساتھ مغربی ادیبوں کی تحریروں کا مطالعہ بھی جاری تھا۔ ان ادیبوں میں ٹامس ہارڈی، چارلس ڈکنز، ارنسٹ ہیمنگوے، میکسم گورکی، چے خف، دوستو فسکی اور موپساں کے نام سرفہرست ہیں۔
قیام لکھنؤ کے زمانے میں انہیں کچھ ادبی جریدوں سے وابستگی کا موقع بھی ملا جس میں ماہنامہ ترکش کا نام سرِفہرست تھا۔ اس کے علاوہ وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین میں بھی فعال رہے اور ان کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ وہ کچھ عرصے فوج سے بھی منسلک رہے۔
پاکستان آنے کے بعد انہیں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے پاس نہ رہنے کی مناسب جگہ تھی اور نہ ہی کوئی معقول ذریعہ معاش۔ ایسے حالات میں انہیں کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ وقت گزارنا پڑا۔ ان لوگوں کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا اور ان کی نفسیات و عادات کا بغور مطالعہ کیا۔ بعد میں یہی افراد ان کے افسانوں اور ناولوں کا بنیادی موضوع یا بنیادی مواد فراہم کرنے والے بنے۔
کچھ عرصے معاشی تگ و دو میں مصروف رہنے کے بعد وہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ وہ جن اخبارات سے منسلک رہے جن میں ٹائمز آف کراچی، ایسٹرن ایکسپریس، پاکستان اسٹینڈرڈ اورمارننگ نیوز کے نام شامل تھے۔
مشہور صحافی حسن عابدی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں شوکت صدیقی نے بتایا کہ ’اس دوران میری کہانیاں ادبی جریدوں میں شائع ہوتی رہیں جن میں ایک کہانی کا نام اندھیری گلیاں تھا۔ یہ کہانی ماہنامہ نیا دور میں شائع ہوئی۔ ادارے نے مجھے اس کہانی کا 100 روپے معاوضہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس کہانی کو مزید آگے بڑھاؤں۔ مجھے ہر قسط کے 100 روپے دیے جائیں گے۔ میں نے اس کہانی کو آگے بڑھایا اور 10 اقساط میں مکمل کیا جس کا معاوضہ مجھے ایک ہزار روپے ادا کیا گیا۔ یہ وہی کہانی ہے جسے 1958ء میں ناول کی شکل میں شائع کیا گیا اور اس ناول کا نام خدا کی بستی تھا‘۔
2، 3 برس تک یہ ناول قدرے گمنامی میں رہا۔ 1960ء میں رائٹرز گلڈ آف پاکستان نے اردو اور بنگلہ کی بہترین ادبی طبع زاد تخلیقات کو انعامات دینے کا فیصلہ کیا۔ انعامات کی رقم مشہور صنعت کار خاندان آدم جی نے دینے کی پیش کش کی۔ اسی نسبت سے یہ انعامات آدم جی ادبی انعام کہلائے۔
پہلے آدم جی ادبی انعامات کے لیے 14 اگست 1957ء سے 30 جولائی 1960ء کا دورانیہ منتخب کیا گیا اور کہا گیا کہ اس دورانیے میں شائع ہونے والی اردو اور بنگلہ زبان کی بہترین کتابوں کو 10، 10 ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ 17 اکتوبر 1960ء کو فیصلے کا اعلان ہوا جس کے مطابق اردو زبان کی کتابوں میں خدا کی بستی (شوکت صدیقی) اور جاڑے کی چاندنی (غلام عباس) اور بنگلا زبان کی کتابوں میں خاتم النبیین (روشن یزدانی) اور کوبی را (سید عبدالستار) کو 1960ء کی بہترین ادبی تخلیقات قرار دیا گیا اور ان میں سے ہر کتاب کے مصنف کو 5، 5 ہزار روپے بطور انعام دیے گئے۔ یہ انعامات 3 جنوری 1961ء کو کراچی میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں صدرِ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے عطا کیے۔
سنہ 1960ء میں خدا کی بستی کو پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا تو گویا اس کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ اس کی شہرت ملک سے باہر بھی پہنچی اور دنیا بھر کی زبانوں میں اس کے تراجم ہونا شروع ہوئے۔ 1973ء میں شائع ہونے والی ایک خبر سے پتا چلتا ہے کہ اس ناول کا جاپانی زبان میں ترجمہ ہوا جو مشہور جاپانی ادیب پروفیسر تاکیشی سوزوکی نے کیا تھا۔ انگریزی زبان میں اس ناول کا ترجمہ پروفیسر ڈیوڈ میتھیوزنے کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ اب تک اس ناول کا ترجمہ دنیا کی 47 زبانوں میں ہوچکا ہے، جس میں سوویت یونین کی 17 زبانوں کے علاوہ چینی، ہندی، بنگالی، گجراتی، بلغاروی اور چیک زبانیں سرفہرست ہیں۔ اردو میں بھی اس ناول کے 50 سے زیادہ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
شوکت صدیقی کا ایک اور مشہور ناول جانگلوس ہے جو سب سے پہلے سب رنگ ڈائجسٹ میں قسط وار شائع ہوا اور پھر اسے پاکستان ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا تاہم پاکستان ٹیلی وژن کی بعض پالیسیوں کی وجہ سے اسے مکمل نشر نہیں کیا جاسکا۔
ڈاکٹر انوار احمد نے لکھا ہے کہ ’عام طور پر تصور کیا جاتا تھا کہ خدا کی بستی کے بعد شوکت صدیقی کی کسی اور تحریر کو ویسی پذیرائی اور مقبولیت حاصل نہیں ہوسکتی مگر جانگلوس نے بھی حیرت انگیز طور پر ان کے قارئین کو مسحور کردیا۔ بلاشبہ خدا کی بستی پورے پاکستانی سماج کا قصہ ہے تاہم اس کا سارا لینڈ اسکیپ یا عقبی منظرنامہ کراچی کا ہے، لیکن جانگلوس پنجاب کے تناظر میں لکھا گیا اور یہ ایک لکھنؤ زادے کا بہت بڑا فکری اور فنی اجتہاد تھا جو مصنف کے سماجی اور سیاسی نصب العین نے ممکن بنایا ہے‘۔
ستار طاہر نے اس ناول کے بارے میں لکھا ’جانگلوس پنجاب کی الف لیلیٰ ہے۔ جانگلوس اردو زبان میں مغربی پنجاب کی تکنیک اور فارم کے لحاظ سے الف لیلیٰ ہے جس میں حقیقت نگاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے‘۔
شوکت صدیقی کی دیگر تصانیف میں افسانوں کے مجموعے تیسرا آدمی، اندھیرا اور اندھیرا، راتوں کا شہر، رات کی آنکھیں، کیمیا گر، عشق کے دوچار دن اور ناول کمین گاہ، چار دیواری اور کوکا بیلی اور اخباری کالموں کے مجموعے طبقاتی جدوجہد اور بنیاد پرستی اور گمشدہ اوراق شامل ہیں۔
شوکت صدیقی روزنامہ انجام اور روزنامہ مساوات کے مدیر اور ہفت روزہ الفتح کے نگران اعلیٰ بھی رہے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی اعلیٰ ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے 2002ء میں انہیں کمال فن ایوارڈ سے نوازاتھا اور 2004ء میں انہیں عالمی فروغ اردو ادب ایوارڈ دیا گیا تھا۔
شوکت صدیقی کا انتقال 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں ہوا اور وہ کراچی ہی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے.