بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے تعطل سے دوچار پاکستان کے قرض پروگرام کی بحالی کو کسی بھی قسم کی شرائط سے منسلک کرنے کے دعوؤں کو مسترد کردیا ہے۔
اسلام آباد میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایزٹر پیریز روئز نے ایکسٹرنل فنڈ فیسیلٹی (ای ایف ایف) کی کسی بھی قسم کی شرائط سے منسلک ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان فروری کے اوائل سے آئی ایم ایف مشن کی میزبانی کر رہا ہے تاکہ معاہدے کی شرائط پر بات چیت کی جا سکے جس میں جون کے لگ بھگ سالانہ بجٹ سے قبل قومی مالیاتی خسارے کو سنبھالنے کے لیے پالیسی اقدامات پر عملدرآمد شامل ہے۔
یہ فنڈز آئی ایم ایف کے 2019 میں منظور کیے گئے 6.5 بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کا حصہ ہیں، جو تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ذمہ داریوں سے بچنا کیلئے نہایت اہم ہیں۔
واضح رہے کہ کچھ روز قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےسینیٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ قومی مفاد کا تحفظ کرتے ہوئے نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو گا۔ ‘کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے’۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس بیان کے بعد حکومت مخالف مختلف سیاسی رہنمائوں کی جانب سے بھی وفاقی حکومت سے وزیر خزانہ کے بیان کی وضاحت مانگی تھی۔
تجربہ کار سیاستدان سینیٹر رضا ربانی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا کہ آیا فنڈ کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے میں تاخیر کا جوہری اور میزائل پروگرام سمیت ملک کے اسٹریٹجک اثاثوں سے کوئی تعلق ہے۔
اس پس منظر میں آئی ایم ایف کی پاکستان میں مقیم نمائندہ ایزٹر پیریز کا قطعیت کے ساتھ کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے پاکستان سے نویں جائزہ مذاکرات کے دوران کسی موقع پر بھی پاکستان کے نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
آئی ایم ایف کی نمائندہ کے مطابق پاکستان سے مذاکرات کے دوران ملکی معاشی اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اقتصادی پالیسیوں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جو مالیاتی استحکام کو فروغ دینے کے لیے فنڈ کے مینڈیٹ کے مطابق ہے۔