بڑے پیمانے پر جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے درمیان امریکا اس وقت سفارت کاری کا ایک دکھاوا برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ حقیقت میں وہ صریحاً اپنے علاقائی مفادات کو آگے بڑھانا کو کھیل جاری رکھے ہوئے ہے، یہ مشرق وسطیٰ کے بحران کی تازہ ترین پیش رفت کے حوالے سے واشنگٹن کے موقف کے لیے درست ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے پینٹاگون کے سابق مشیر کرنل ریٹائرڈ ڈگلس میکگریگر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر لکھتے ہوئے تسلیم کیاہےکہ مشرق وسطیٰ میں روس کی پوزیشن مضبوط جبکہ امریکا کی پوزیشن مضحکہ خیز نظر آتی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی سفارتکاری کا تنقیدی نظروں سے جائزہ لیتے ہوئے پینٹاگون کے سابق مشیر کا کہنا ہے کہ تذویراتی طور پر روسی صدر پوٹن کے پاس مشرق وسطیٰ کے تمام کارڈز ہیں، ان کا علاقے میں بڑے پیمانے پر احترام کیا جاتا ہے جنہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
Strategically Putin holds all the cards in the Middle East.
He is widely respected in the region and has practiced restraint.
If you look at this like a branding exercise, our branding is seriously damaged in the Middle East.
We look ridiculous and Russia looks strong.
— Douglas Macgregor (@DougAMacgregor) April 29, 2024
’اگر آپ اسے برانڈنگ کی مشق کی طرح دیکھیں تو مشرق وسطیٰ میں ہماری برانڈنگ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ہم مضحکہ خیز نظر آتے ہیں اور روس مضبوط نظر آتا ہے۔‘
مشرق وسطیٰ کا بحران بدستور جاری ہے، غزہ کی پٹی میں حماس کیخلاف اسرائیل کی جنگ نے بڑے پیمانے پر انسانی بحران اور فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کو جنم دیا ہے۔ تاہم، بائیڈن انتظامیہ، جو اسرائیل کو سیکیورٹی امداد فراہم کرتی رہتی ہے، بحران کے انتظام کی کوششوں میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن کو مشرق وسطیٰ کے اتحادیوں نے نظر انداز کردیا تھا اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کی شٹل ڈپلومیسی بھی ناکام رہی تھی، جس کے بعد واشنگٹن نے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبات میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور یمن میں حوثیوں کے خلاف حملے شروع کر کے مشرق وسطیٰ میں تشدد کو مزید ہوا دی ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اس بات کے واضح آثار ہیں کہ امریکا مشرق وسطیٰ میں اب کسی ملک کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ کیا کرنا ہے، اور یہاں تک کہ اسرائیل بھی ٹیم بائیڈن کے احکامات پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔