محمد اورنگزیب وزیر خزانہ ہیں۔ وزارت سنبھالنے سے پہلے یہ سب سے بڑے بینک کے سی ای او تھے۔ بندہ وزیر خزانہ بنا اور بینک کو جرمانہ ٹھک گیا۔ سب سے بڑا بینک ہے اور شیئر کے حساب سے پہلے تین چار نمبروں پر نہیں ہے۔ شیئر کی قیمت بھی گرتی رہی۔ ان دو باتوں سے آپ کیا سمجھے؟ جو بھی سمجھیں اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مارکیٹ سے ردعمل آیا۔ نامزدگی کسی کو پسند نہیں آئی۔ اسٹاک مارکیٹ کے سیٹھوں کو تو آئی ہی نہیں۔
وزیر خزانہ باتیں کیا کررہے ہیں۔ ٹیکس نیٹ بڑھاؤ، چھوٹے تاجر کو ٹیکس نیٹ میں لاؤ، بینکوں کا انٹرسٹ ریٹ کم کرو، نجکاری کرو، سب سے اہم یہ کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایک لانگ ٹرم پروگرام میں جاؤ تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہو۔ مارکیٹ اور سرمایہ کار کو پیغام جائے کہ پاکستان کی معاشی صورتحال لمبے عرصے کے لیے مستحکم ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے گا اور روپیہ جان پکڑے گا۔
آئی ایم ایف سے لانگ ٹرم پروگرام لینا ایک فائدہ دیتا ہے لیکن اس کا ایک دوسرا اینگل بھی ہے۔ پاکستان کو سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے بھی ڈونر ملکوں اور اداروں نے لمبی رقم دینے کا وعدہ کررکھا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بھی پاکستان سب سے متاثرہ ملک شمار ہوتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان کو کلائمیٹ فنڈ سے بھی پیسے مل سکتے ہیں۔ امریکی پاکستان کی معیشت کے حوالے سے بار بار بیان دے رہے ہیں کہ اس کو بہتر ہونا چاہیے، ہم مدد کریں گے۔
کلائمیٹ فنڈ ہو، سیلاب متاثرین کے لیے مدد اور گرانٹ کے وعدے ہوں۔ اس کو چین ایک اور نظر سے دیکھتا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام اور یہ گرانٹ سب مغرب اور امریکی آشیر باد سے ملنی ہے۔ جب پیسے وہاں سے آنے ہیں جن کی چین سے لاگت بازی چل رہی ہے تو سی پیک اور دوسرے مشترکہ میگا پراجیکٹس پر ایک پریشر تو محسوس ہوگا۔ پاکستان کے لیے چینی سرمایہ کاری بھی اہم ہے۔
یہ وہ صورتحال تھی جب میاں نوازشریف نے جہاز پکڑا اور چین پہنچ گئے۔ وہ ہانگ کانگ بھی گئے۔ میاں صاحب کی اعلانیہ ملاقاتیں سرمایہ کاروں اور بڑی کمپنیوں کے سی ای اوز سے ہوتی رہیں۔ نواز شریف کی روانگی کے 2 دن بعد مسلم لیگ ن پنجاب نے ایک قرارداد پاس کی۔
اس قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ نواز شریف اب پارٹی کی صدارت سنبھالیں۔ اس کے بعد دوسرا کام یہ ہوا کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ یہ نامزدگی تب ہوئی جب نواز شریف کا دورہ چین ابھی جاری تھا۔ یہ دونوں باتیں نوازشریف کی بڑھتی طاقت کا اظہار تھا۔ ان دو واقعات کے تسلسل میں تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ رانا ثنااللہ کو وزیراعظم کا مشیر مقرر کردیا گیا۔ ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔
اب مسلم لیگ ن کی عاملہ کا اجلاس ہو گا۔ جس میں نئے پارٹی عہدیداروں کا انتخاب یا نامزدگی ہوگی۔ اس کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما مقبول باتیں کرتے بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ سیاست پبلک موڈ سے زیادہ دور رہ کر نہیں کی جاسکتی۔ جو اسپیس چھوڑی جائے وہ فوری بھر جاتی ہے۔ بھرنے والا ضروری نہیں کہ دوست ہو، وہ حریف بھی ہوسکتا ہے۔ ہماری صورتحال میں تو حریف ہی ہوتا ہے۔
نوازشریف جب چین میں تھے تو 3 اور پاکستانی وفد بھی وہیں گھوم رہے تھے۔ ایک پارلیمانی وفد تھا، ایک میڈیا کا وفد تھا، ایک انڈراسٹینڈگ چائنا نامی تھنک ٹینک کا وفد تھا۔ اس تیسرے وفد کی قیادت خورشید محمود قصوری کررہے تھے۔ ظفرالدین محمود سی پیک کے لیے پاکستان کے سابق سفیر ہیں، انڈراسٹینڈنگ چائنا فورم کے وہ روح رواں ہیں۔ وہ خود بھی وفد کا حصہ تھے۔ ایگریکلچر اور ایگریکلچر اکانومی کے 2 ماہرین بھی اسی وفد میں شامل تھے۔ ڈاکٹر سلمان شاہ بھی اس وفد کے اہم رکن تھے۔ سلمان شاہ کی صاحبزادی خدیجہ شاہ پر 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
انڈراسٹینڈنگ چائنا فورم کے 5 رکنی وفد کے ارکان کا جائزہ لیں۔ ان کے وہاں دیے گئے انٹرویوز پڑھیں۔ کچھ باتیں سمجھ آتی ہیں، حوالدار بشیر ہر طرح سے بیجنگ کو تسلی رکھنے اور کرانے کی کوشش کرتا دکھائی دے رہا ہے۔
اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم بنا کر نوازشریف نے سب کو پیغام دیا ہے کہ وہ طاقت کا مرکز ہیں۔ اہم فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ دوست ملک چین کے دورے کے دوران ایسا ہوا ہے تو اس کی وجہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے۔ ایسا کرنا ویسٹ چین اور اس کے مخالفین کے درمیان ایک بیلنس رکھنے کی کوشش ہے۔ اس کو اس طرح بھی دیکھ لیں۔ پھر جو کچھ سمجھ آئے اس پر بولیں مت۔