یہ ڈیڑھ، پونے دو برس پہلے کی بات ہے جب اسلام آباد میں ’ میڈیا کی آزادی‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سیمینار سے ایک سابق وزیر اعظم خطاب فرما رہے تھے۔ اس وقت انھیں سابق ہوئے محض تین ماہ اور چند دن ہی ہوئے تھے۔وہ کہہ رہے تھے ’آزادی صحافت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا‘۔ وہ حسب عادت ایک بار پھر مغربی معاشرے کی خوبیاں بیان کر رہے تھے کہ وہاں پر اخلاقیات کے ایسے ایسے معیار ہیں جو آج تک میں نے اپنے ملک پاکستان میں نہیں دیکھے۔ وہاں سب سے بڑی چیز جو میں نے دیکھی، وہ ہے اظہار رائے کی آزادی۔‘
اگر کسی کو ابھی تک اندازہ نہیں ہوا کہ یہ سابق وزیراعظم کون تھے تو وہ جان لے کہ یہ تھے، جناب عمران خان۔ انھوں نے آزاد میڈیا کی اہمیت اور ضرورت پر مزید بہت کچھ کہا، اس کی افادیت خوب بیان فرمائی۔ پھر یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے دور اقتدار میں کبھی کسی صحافی کے خلاف کارروائی ہوئی نہ ہی انھوں نے ایسا کبھی سوچا۔ پھر شاید انھیں کچھ خیال گزرا ہو کہ ان کے دور میں بہت سے صحافیوں کو نوکری سے نکلوایا گیا تھا، بعض پر قاتلانہ حملے ہوئے تھے، بعض کو گرفتار کیا گیا تھا اور بعض اغوا کیے گئے تھے۔ جیسے ہی یہ واقعات یاد آئے تو پکار اٹھے’ مجھے تو کابینہ کے اجلاس میں پتہ چلتا تھا کہ فلاں صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے۔‘
جب عمران خان یہ بات کہہ رہے تھے تو سیمینار میں موجود ہر شخص نے خان صاحب کی اس قدر بے مثال ’معصومیت‘ پر دانتوں تلے اپنی ساری انگلیاں دبا لیں۔ اسے ابصار عالم، میر شکیل الرحمان، حامد میر، اسد طور، مطیع اللہ جان، محسن بیگ، نجم سیٹھی، عاصمہ شیرازی، مرتضیٰ سولنگی، نصرت جاوید، عنبر شمسی اور سید طلعت حسین سمیت ان گنت نام یاد آ رہے تھے جنھیں خان صاحب کے دور میں جبر کا نشانہ بنایا گیا۔
جب بھی ان صحافیوں میں سے کسی کے خلاف کارروائی ہوتی تو خان صاحب کے اردگرد بیٹھے وزرا، مشیران اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے چہروں پر شیطانی مسکراہٹ رقص کیا کرتی تھی اور پھر وہ سینہ تان کر اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا کرتے تھے جیسے انھیں ہمیشہ ایوان اقتدار میں رہنا ہے۔
خان صاحب کے پونے چار سالہ دور میں صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر کافی غلیظ ٹرینڈز چلائے جاتے تھے۔ ان ٹرینڈز میں پی ٹی آئی رہنماؤں سے لے کر کارکنان تک، ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔
جناب عمران خان ہر دوسرے، تیسرے روز اپنے ترجمانوں کا اجلاس بلایا کرتے تھے، جس میں شریک ہونے والوں کو بخوبی یاد ہے کہ وہاں کس، کس صحافی کے خلاف کیا، کیا باتیں کی جاتی تھیں اور پھر کیا ، کیا منصوبے بنائے جاتے تھے۔ یقیناً خان صاحب ان میٹنگز میں ہونے والا یہ سب کچھ نہیں بھولے تھے، اس کے باوجود وہ اب میڈیا کی آزادی کے فضائل بیان کر رہے تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ ان کے دور میں میڈیا کے خلاف کچھ غلط نہیں ہوا۔یہ محض ان کی کہہ مکرنیاں ہیں۔
اقتدار میں رہ کر صحافت کا گلہ گھونٹنا اور جب ایوان اقتدار سے باہر جاکر میڈیا کی آزادی کی اہمیت بیان کرنا، اس باب میں صرف ایک عمران خان ہی کا نام نہیں ہے۔ ان سے پہلے جتنے بھی حکمران گزرے ، وہ بطور اپوزیشن لیڈر کہتے ’آزادی صحافت کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا‘، اور اقتدار میں آکر اپنے عمل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ صحافت کے ساتھ کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔
مشہور برطانوی مصنف اور صحافی جارج آرویل کا ایک شہرہ آفاق ناول ہے’ 1984‘۔ اس میں وہ ایک ایسے ملک کی کہانی بیان کرتے ہیں جہاں ہر چیز کی اصلیت مختلف ہوتی تھی۔ ظاہر میں کچھ اور باطن میں کچھ ہوتا تھا۔ سچائی اصل میں جھوٹ کا نام ہوتا تھا اور جسے محبت کہا جاتا تھا، وہ دراصل ’اذیت‘ ہوتی تھی۔ مثلاً ’ وزارت امن‘ کا کام جنگ کرنا تھا۔ ’ وزارت برائے فراوانی‘ کا مطلب ملکی معیشت پر شکنجہ سخت سے سخت تر کرنا تھا، اس کی کارکردگی محض یہ تھی کہ لوگوں کے ہاں راشن کم سے کم تر ہوتا چلا گیا۔
ایک ’ وزارت سچائی‘ بھی تھی جس کا کام تاریخ کو ’سیدھا‘ کرنا تھا، ہر اس بات کو تاریخ کی کتب سے خارج کرنا تھا جو حکمران جماعت کے خلاف ہوتی تھی۔ ایک ’وزارت محبت‘ تھی جس کے تحت سیاسی مخالفین کو ’راہ راست‘ پر لایا جاتا تھا، یعنی ان کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کیا جاتا تھا۔ غرضیکہ اُس ملک میں حکمران جماعت کی ہر کوشش اپنی مطلق العنانیت کے نظام کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کے لیے تھی۔ حکمران جماعت ملک میں بسنے والے ہر فرد اور اس کی سوچ کو اپنے مکمل قابو میں کرنا چاہتی تھی، ہر مخالفانہ سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی تھی۔ بس! اس کے دانت کھانے کے اور تھے، دکھانے کے اور۔
یہ ناول پڑھ کر محسوس ہوا کہ ہم سب پاکستانی جارج آرویل کے بیان کردہ ملک میں ہی رہ رہے ہیں۔ ہم اسی ماحول میں جی رہے ہیں جس کی عکاسی 1984 نامی ناول میں کی گئی۔ یہاں جسے جمہوریت کہا جاتا ہے، وہ دراصل آمریت ہوتی ہے۔ خلق خدا کے راج کا مطلب طبقہ اشرافیہ کا راج ہوتا ہے۔ مفاد عامہ کا مطلب عوام دشمنی ہوتا ہے۔
یہاں ہر حکمران کہتا ہے کہ اس کے دور میں مکمل آزادی صحافت ہے، اس کے دور میں کبھی کسی صحافی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی، حتیٰ کہ اس کا گمان بھی نہیں گزرا تھا۔ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاالحق اور بعد میں آنے والے حکمران بھی یہی کہتے رہے لیکن انھوں نے صحافیوں کو بدترین جبر کا نشانہ بنایا۔نواز شریف کا دامن بھی داغدار ہے اور جنرل مشرف تو تھے ہی ڈکٹیٹر۔ ان کے دور میں ملک کے چیف جسٹس کو بالوں سے کھینچا جاتا تھا صحافی کیا اہمیت رکھتے تھے۔ صحافیوں کے لاشے اس پاک سرزمین پر گرتے رہے اور حکمران ورد کرتے رہے کہ ان کے دور میں صحافت مکمل طور پر آزاد ہے۔
آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے جائزے کے مطابق پاکستان آزادی صحافت کے انڈیکس میں دنیا کے 180 ممالک میں سے 150 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ یہ درست کہ عمران خان کے دور حکومت کی نسبت اس وقت پاکستان میں آزادی صحافت کی حالت قدرے بہتر ہے۔ عمرانی دور میں پاکستان کا نمبر 157 تھا۔ ان دنوں میں ایسا لگ رہا تھا کہ جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا دور پھر آچکا ہے۔
اب صحافیوں کے قتل، اغوا اور گرفتاریوں میں نسبتاً کمی واقع ہوئی ہے لیکن مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ آزادی صحافت کو آج بھی بدترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج بھی واضح ہدایات ملتی ہیں کہ فلاں خبر نہیں لگے گی اور فلاں خبر ہر قیمت پر لگے گی۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، کئی صحافی پابند سلاسل ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انھیں بخوبی علم ہوتا تھا کہ کس صحافی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے جبکہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ان کے دور میں صحافیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
جب یہ سطور لکھ رہا تھا ، جناب وزیراعظم شہباز شریف کا بیان نظر سے گزرا کہ وہ میڈیا اور اظہار کی آزادی کو جمہوریت کی بقاء اور زندگی کا معاملہ سمجھتے اور اس پر پختہ یقین رکھتے ہیں۔ آنجناب نے یہ بات آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ایک پیغام میں کہی۔