یہ مارچ 2018 کی بات ہے جب خبر سنی کہ باجوہ صاحب نے کچھ صحافیوں سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ وہ پاکستان کو کیسی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں.ان کے ذہن میں ملکی معیشت، خارجہ پالیسی، دفاعی سٹریٹجی، عوام کی تعلیم وتربیت اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کیا کیا تجاویز ہیں۔
وہ کون سےمنصوبوں کو ضروری اور کون سے منصوبوں کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے معیشت پر بوجھ تصور کرتے ہیں.
اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کے تفصیلی خدوخال اس دن واضح ہوئے جب 19مارچ 2018 کے جنگ کے کلر فل پیج پر باجوہ ڈاکٹرائن کے نام سے سہیل وڑائچ کی تحریر شائع ہوئی. یہ تحریر پڑھتے ہوئے میرا ذہن 4 اکتوبر 1954 کی اس رات کی طرف چلا گیا جس کا ذکر ایوب خان نے اپنی سوانح میں کچھ اس طرح کیا ہے:
“میں کمرے میں ٹہل رہا تھا کہ میں نے اپنے آپ سے کہا ‘آؤ ذرا فوجی طریق پراپنے خیالات تو قلم بند کریں. ملک میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے اور اس کاعلاج کیا ہے؟’ میں نے اس معاملے کو اس انداز سے دیکھا جس طرح کوئی فوجی صورتحال کا جائزہ لیتا ہے. مسئلہ کیا ہے؟ کن عناصر نے الجھا رکھا ہے؟ اور اگر اس کا کوئی حل ہو سکتا ہے تو وہ حل کیا ہے؟ چنانچہ میں اپنے کمرے میں’ میز کے پاس بیٹھ گیا اور لکھنا شروع کر دیا.
شروع شروع میں میرے خیالات الجھے الجھے سے تھے لیکن جلد ہی ہر بات روشن ہو گئی. چند گھنٹوں میں’ میں نے ایک دستاویز تیار کر لی’ جس میں’ میں نے ملک کے موجودہ مسائل پر خیال آرائی کی تھی اور اپنا نقطہ نگاہ پیش کیا تھا. میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ملک کے حالات ابتر ضرور ہیں لیکن ایسے نہیں کہ ان کی اصلاح نہ ہو سکے…”
ایوب خان نے ملک و قوم کی اصلاح کی یہ ذمہ داری خود ہی اپنے پر فرض کرلی تھی اور پھر اس ذمہ داری کے بوجھ تلے 1958 میں ملک کے مالک ومختاربن بیٹھے. یہ اور بات ہے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ تو وہ پہلے سے موجود مسائل کو حل کر سکے اور نہ ہی ان کے اقتدار سنبھالنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے سدباب کے لیے کوئی راستہ نکال سکے.
لیکن اپنے بعد آنے والے ہر طالع آزما کے لیے راستہ ضرور کھول گئے.ایوب خان پاکستان کے ہر اس سیاستدان اور ہر اس حکمران کے بہت پسندیدہ کردارہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے اقتدار کے مزے لیتا ہے. ضیاء الحق کی تخلیق کردہ مطالعہ پاکستان نے ویسے بھی ہمیں اچھی طرح باور کروا دیا تھا کہ ایوب خان کا دور پاکستان میں معاشی و اقتصادی ترقی کا سنہرا ترین دور تھا.
ضیاء الحق کا ذکر آیا ہے تو پاکستان پر 11سال بلاشرکتِ غیر حکومت کرنے والے اس آرمی چیف کے خیالات کا بھی مختصر جائزہ لے لیتے ہیں. موصوف نے 4 جولائی 1977 کو آپریشن فئیر پلے کے ذریعے ملک میں مارشل لاء لگاتے ہوئے90 دن میں انتخابات کروانے کا اعلان کیا لیکن وہ 90 دن گیارہ سال پر محیط ہو گئے.
اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ضیاء الحق کو بھی یہی لگا کہ ایک وہی اس ملک و قوم کے نجات دہندہ ہیں. امیر المومنین بننے کے خواہش مند اور نفاذِ اسلام کا نعرہ لگانے والے اس نجات دہندہ نے ملک کو انتہا پسندی اور کلاشنکوف کلچر کا ایسا عفریت دیا جس کے اثرات سے ہمارا معاشرہ آج تک نہیں نکل سکا۔
اب جبکہ سبھی آمروں کی داستان کھل ہی گئی ہے تو جرنیل مشرف کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ مشرف کی آمریت کے بہت سے تحفے ہیں اور کیونکہ ماضی بہت بعید نہیں تو یاد بھی زیادہ ہیں جیسے ایمرجنسی کا نفاذ، پاور کرائسز، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی تحریک، لال مسجد سانحہ، بگٹی کا قتل وغیرہ ، بہرحال سب سے اہم کارنامہ پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں جھونکنا تھا۔ باقی تقریباً اس جنگ کے اثرات تھے جن سے پاکستان آج بھی نہیں نکل سکا۔
کہا جاتا تھا کہ کوئی بھی طالع آزما اپنی خوشی سے اقتدار پر مسلط نہیں ہوتا بلکہ پاکستان جیسے ملک میں عوام خود اسے مسلط ہونے کی دعوت دیتی ہے اور پھر اس کے آنے پر مٹھائیوں اور ڈھول باجوں سے اس کا استقبال کیا جاتا ہے. دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں ایسا ماحول بن جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ اگر فوج نے اقتدار پر قبضہ نہ کیا تو پتہ نہیں ایسا کونسا نقصان ہو جائے گا جس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔
بہرحال یہ باتیں ماضی بعید کی ہیں۔ اب یقیناً حالات کچھ بدل چکے ہیں اورعوام میں یہ اویرنس آ چکی ہے کہ مارشل لاء مسائل کا حل نہیں؛ کرپٹ اور چور صرف عوامی نمائندے نہیں بلکہ بعض کنڈیشنز میں تو سیاستدانوں کی کرپشن ریاستی اداروں میں بیٹھے دائمی حکمرانوں کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ لگتی ہے۔
عوامی نمائندوں کے مقابلے میں جرنیل اقتدار میں آ کر جو مسائل چھوڑ جاتے ہیں ان کا حل دہائیوں تک نہیں نکلتا جیسے ایوب کے مارشل لاء کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ، ضیاء کا افغان جہاد، مشرف کا دہشت گردی کی جنگ میں حصے دار بننا اور باجوہ صاحب کا پس پردہ رہ کر عمران خان کو مسلط کرنا۔
آج پاکستان جن بھی مسائل کا شکار ہے ان کی وجہ یہ ہے کہ باجوہ صاحب نے اپنی ڈاکٹرائن (جسے آج وہ قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ میری کوئی ڈاکٹرائن نہیں تھی) کی تکمیل کے لیے جسے چنا وہ کسی طور اس قابل نہیں تھا کہ 22کروڑ کے ملک کا انتظام اس کے ہاتھ میں دیا جاتا۔
ماضی بعید و قریب میں آنے والی تمام ڈاکٹرائن کے نتائج کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ آئندہ کوئی ریاستی ملازم ڈاکٹرائن نہیں لکھے گا اور نہ ہی ریاستی وسائل کاسہارا لے کر کسی منتخب حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے گا۔
ہاں اگر اپنی سوچ اور فکر بہت ہی تنگ کرے تو اس کے لیے راست اقدام لیتے ہوئے ریاستی عہدے سے مستعفی ہو گا اور اپنے منشور کے ساتھ عوام میں آئے گا۔ امید پہ دنیا قائم ہے تو ہم بھی یہ امید رکھ لیتے ہیں۔