بلوچستان کے ضلع خضدار میں جمعے کی دو پہر چمروک کے علاقے میں زور دار دھماکہ ہوا جس کے نیتجے میں 3 افراد جاں بحق اور کم از کم 7زخمی ہوئے۔
مزید پڑھیں
امدادی ٹیموں نے جائے وقوعہ سے لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا جہاں زخمیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے جبکہ علاقے کو گھیرے میں لے کر شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دھماکے کی سی سی ٹی وی ویڈیو وی نیوز کو موصول ہوگئی جس میں دھماکے سے گاڑی کو تباہ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس کے مطابق دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں مولانا محمد صدیق مینگل بھی شامل تھے جو پیشے سے ایک صحافی اور جمعیت علمائے اسلام ف بلوچستان کے نائب امیر تھے۔ صدیق مینگل جامعہ خضدار سے گھر جا رہے تھے کہ ان کی گاڑی ایک زوردار دھماکے کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں صدیق مینگل موقعے پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ بعد ازاں دھماکے سے متاثرہ مزید 2 افراد بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق دھماکہ خیز مواد کو گاڑی سے چسپاں کیا گیا تھا اور اسے ریموٹ کنٹرول کی مدد سے اڑایا گیا۔
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے بم دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافت کی آزادی رائے کے دن ایک صحافی کو شہید کرنا صحافت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔
’دہشت گردوں کا کوئی دین ایمان نہیں‘
ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ تمام زخمیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کا کوئی ایمان نہیں اور وہ معصوم اور نہتے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
دریں اثنا بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے خضدار پریس کلب کے صدر اور سینیئر صحافی مولانا محمد صدیق مینگل کی بم دھماکے میں شہادت اور حق اور سچ کی جنگ لڑنے والے صحافیوں پر قاتلانہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یو جے کا ردعمل
بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد نے اپنے ایک بیان میں خضدار پریس کلب کے صدر کے قتل پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافت کے عالمی دن سینیئر صحافی کا قتل حکومتی مشینری کے منہ پر طمانچہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے عوام کو تحفظ کے دعوے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جارہا ہے جس پر صحافی برادری ہرگز خاموش نہیں رہ سکتی۔
خلیل احمد نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز احمد بگٹی اور آئی جی پولیس واقعہ میں ملوث ملزمان کو جلد قانون کی گرفت میں لائیں بصورت دیگر ملک گیر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔
صدیق مینگل کون تھے
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے خضدار کے صحافی امیر بجوئی نے بتایا کہ صدیق مینگل کا شمار بلوچستان کے سینیئر ترین صحافیوں میں ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدیق منگل نے 3 دہائی قبل صحافت میں قدم رکھا تھا اور اس وقت ایک مؤقر اخبار سے منسلک تھے۔
انہوں نے بتایا کہ صدیق مینگل گزشتہ ڈیڑھ سال سے پریس کلب خضدار کے صدر بھی تھے اور اس سے قبل وہ انہوں نے کلب کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے اور دیگر عہدوں پر بھی خدمات انجام دیں۔
صدیق مینگل کی اس کے علاوہ ایک طویل عرصے سے سیاست سے بھی منسلک تھے اور جمعیت علمائے اسلام ف کے صوبائی نائب امیر کے عہدے پر فائز تھے۔
کیا صدیق مینگل کو جان کی دھمکی ملی تھی؟
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایس ایچ او سٹی خضدار غلام مصطفیٰ رند نے بتایا کہ مولانا صدیق مینگل کو حالیہ دنوں میں کسی قسم کی دھمکی موصول نہیں ہوئی تھا اور نہ ہی انہوں نے اس حوالے سے پولیس کو کوئی اطلاع دی تھی۔
دوسری جانب خضدار کے مقامی صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وی نیوز کو بتایا کہ صدیق مینگل نے کسی قسم کا تھریٹ موصول ہونے سے متعلق کچھ نہیں کہا لیکن گزشتہ برس صدیق بلوچ کی گاڑی پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تھی جس کے نیتجے میں وہ محفوظ رہے تھے۔