خود اعتمادی کا منتر

اتوار 5 مئی 2024
author image

محمد اقبال

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج ہم کامیابیوں کی ایسی ساختی کہانیوں کے بیچ زندہ ہیں جہاں ہمارے حکمران، ہمارے رہنما اکثر اپنی تقریروں میں ہمیں ’خود پر بھروسا‘ یعنی ’خود اعتمادی‘ یا ’ خود پر توکل‘ کا منتر سکھاتے ہیں۔ اگرچہ یہ خوش کن ’منتر‘ بہت سے افراد کے لیے درست اور خوش بخت ثابت ہوسکتا ہے، لیکن جب غریبوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کی بات آتی ہے، تو ’خود پر بھروسے‘ کا یہ احساس اکثر غریب کی زندگی میں معنی خیز تبدیلی پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ غریبوں کی زندگی ’خود پر بھروسے‘ کے اس خوش کن احساس سے بہتر کیوں نہیں ہو پاتی؟

حقیقت یہ ہے کہ آج کا ماہر نفسیات اس احساس کو محض ایک مغالطے اور فریب سے تعبیر کرتا ہے جب کہ قرآ ن حکیم’توکل‘ یا ’خود پر بھروسے‘ کا مفہوم تدبیر، دستیاب وسائل کی مناسب منصوبہ بندی، وقت اور حالات کا درست تجزیہ اور زمینی حقائق کا بروقت ادراک اور فوری اقدامات کو اس ’نفسیاتی احساس‘ کے ترکیبی عناصر سے تعبیر کرتا ہے۔

یقیناً قرآن کریم نے ہماری واضح طور پر رہنمائی فرما دی ہے کہ حقیقت میں غربت جیسے مسائل سے محض ’خود اعتمادی‘ یا مثبت سوچ کے ذریعے نہیں نمٹا جا سکتا بل کہ زیادہ تر ایک غریب کے حالات نظامی و انتظامی مسائل سے ہی جڑے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خود اعتمادی، توکل اور مثبت سوچ بلا شبہ ترقی کے لیے انتہائی اہم ہیں، لیکن وہ سماجی و اقتصادی رکاوٹوں کے پیچیدہ ساختی جال سے باہر نکلنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ ’خود اعتمادی‘کے لیے اعلیٰ مقاصد پر توجہ مرکوز کرنا، فعال اور محنتی ہونا اور اپنے سماجی تعلقات کا بہترین استعمال کرنا تبھی ممکن ہوسکے گا جب آپ کے پاس وسائل موجود ہوں گے۔ گویا آپ اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے خود پر بھروسا تبھی کر سکتے ہیں جب آپ کے پاس وسائل دستیاب ہوں گے۔

یہی وجہ ہے کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ غریب اور بے روزگار لوگ محض اپنے آپ پر اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرکے اپنی زندگی کے حالات کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوتے، بلکہ انہیں اپنی کامیابی کے لیے وسائل، دوسروں پر انحصار اور ان کی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ وسائل کی کمی اور زندگی میں پایا جانے والا عدم استحکام فرد میں بے بسی اور مایوسی کی کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ اس معاملے میں ’کھلا ذہن رکھیں‘ یا ’بڑا سوچیں‘ آپ کے لیے ’خود اعتمادی ‘ کا منتر کام نہیں کرے گا کیوں کہ وہ لوگ جو ایسے کسی مخصوص حاشیے میں رہتے ہیں انہیں کسی ’خود اعتمادی‘ یا ’خود پر بھروسے‘ کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں ایسے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے جو ان پر مسلط  احساس محرومی، مالی عدم استحکام اور سماجی بے بسی کو دور کریں۔

یہ ماننے کی ضرورت ہے کہ غربت میں زندگی گزارنے کے نفسیاتی اثرات اور ’خود اعتمادی ‘ کے درمیان تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ مسلسل مالی دباؤ، بنیادی ضروریات تک رسائی کا فقدان اور ترقی کے محدود مواقع فرد کی ذہنی صحت پر اہم اثر ڈال سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں صرف لوگوں کو ’ اپنے آپ پر بھروسا رکھنے‘ کی تلقین کرنا غربت کے پیچیدہ جذباتی اور نفسیاتی اثرات کو زیادہ گہرا کر دیتا ہے۔

عوام کے اندر اگرچہ ’ خود اعتمادی‘ کی بیداری ضروری ہے تو پھر غربت سے نمٹنے کے لیے جامع اور منظم تبدیلیاں بھی اتنی ہی ضروری ہیں۔ اس کے مؤثر حل میں پالیسی اصلاحات، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور غربت کی بنیادی وجوہات کو تلاش کرنا سب سے اہم ہے۔

اگرچہ ’خود اعتمادی‘کو فروغ دینا بلاشبہ قابل قدر ہے، لیکن اس طرح کی حوصلہ افزائی کو ٹھوس حمایت اور مواقعوں کے ساتھ جوڑنا بھی ضروری ہے۔ اس الجھن کو حل کرنے کے لیے غربت کی کثیر الجہتی وجوہات اور خود اعتمادی کے حصول میں حائل نظامی رکاوٹوں پر غور کرنا، اس سے بھی کئی زیادہ ضروری اور اہم ہے۔

سب سے اہم یہ بات تسلیم کرنا ہے کہ غربت صرف انفرادی کوتاہیوں یا ’خود اعتمادی‘ کی کمی کا نتیجہ نہیں ہے بل کہ دراصل یہ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معاشی مواقعوں تک غیر مساویانہ رسائی جیسے انتظامی اور نظامی مسائل کا نتیجہ ہے۔

جب آپ کے تمام تر ساختی پہلو غیر مساویانہ تقسیم سے جڑے ہوئے ہوں اور غریب کی بنیادی ضروریات اور بنیادی حقوق پورے نہ ہو رہے ہوں تو ’خود اعتمادی‘ یا ’خود پر بھروسے‘ کا تصور بیکار معلوم ہوتا ہے۔

دوسری جانب غربت میں زندگی گزارنے کے نفسیاتی اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، مسلسل مالی و ساختی مشکلات میں ’اپنے آپ پر بھروسا‘ کرنا نہایت ہی مشکل ہوجاتا ہے کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے روزانہ کی جدوجہد سماجی بدنامی کے وزن کے ساتھ مل کر ناامیدی کا ایک ایسا احساس پیدا کر دیتی ہے جو محض سیاسی رہنماؤں اور خودساختہ مقررین کے ’خود پر بھروسے‘ کے منتر سے ختم نہیں ہو سکتا۔

’خود اعتمادی ‘ کو ٹھوس ترقی میں بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ عام آدمی کو بھی معیاری تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، رہنمائی اور معاشی وسائل تک مساویانہ رسائی حاصل ہو۔ ضروری ہے کہ ملکی نظام میں عدم مساوات کو دور کیا جائے، جامع پالیسیوں کی وکالت کی جائے اور ایک ایسا مساویانہ نظام تشکیل دیا جائے جو ’خود پر بھروسے‘ یا ’خود اعتمادی‘ جیسے سادہ موٹیویشنل منتروں سے بالاتر ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp