الف لیلہ کی دنیا تو جانے کیسی ہوگی لیکن توشہ خانے کے اسرار و رموز بھی کچھ کم ہوشربا نہیں۔ خیال یہی تھا کہ تھوڑی چہل قدمی ان بھول بھلیوں میں کی جائے گی لیکن بیچ میں زمان پارک آگیا ہے۔ یوں بات عمران خان کی قانون شکنی تک آ پہنچی ہے جس کے آفٹر شاکس سے زمین لرز رہی ہے۔
یہ سال 2019ء کے عین انہی دنوں کی بات ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ایک انکشاف کیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے امریکی سلامتی کو لاحق 5 خطرات کی نشاندہی کی۔ ان میں ایک خطرہ بقول ان کے پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مشیروں کا یہی اندازِ فکر تھا۔ اہلِ پاکستان جس سے تشویش محسوس کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ امریکا میں آنے والی تبدیلی دنیا کے لیے تو چاہے جیسی بھی ہو، پاکستان کے لیے کوئی نیک فال نہیں۔
عمران اقتدار میں لائے گئے تو ابتدا میں یہی محسوس ہوا کہ ان کے احساسات بھی قوم سے مختلف نہیں۔ عمران خان کو روایتی طور پر دائیں بازو کی قوت خیال کیا جاتا ہے۔ اس تاثر کو قوی کرنے کا وہ اہتمام بھی کرتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے طالبان کا ساتھ دیا اور طالبان خان کہلوانا پسند کیا لیکن اس سے بھی پہلے انہیں اس ضمن میں ایک غیر معمولی کمک میسر آئی تھی۔
پچھلی صدی کے آخری برسوں میں جب وہ اپنی جماعت بنانے کی تیاریوں میں مصروف تھے، تب جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے فرمایا کہ عمران خان کوئی نئی جماعت نہ بنائیں، وہ ہمارے ہیں، ہماری طرف آجائیں۔ قاضی صاحب مرحوم کی طرف سے انہیں یہ جماعت اسلامی میں شمولیت کی دعوت تھی یا نہیں، یہ الگ بات ہے لیکن اس پیش کش سے عمران خان کا نظریاتی رشتہ بہرحال طے ہوگیا۔ اقتدار میں آنے سے پہلے اور بعد میں بھی انہوں نے اس تاثر کو ریاستِ مدینہ جیسی مقدس اصطلاحات استعمال کرکے شعوری طور پر قوی کیا۔
پاکستان کا دایاں بازو ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں ہمیشہ حساس اور پُرجوش رہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے دائیں بازو کے ساتھ نظریاتی رشتے کو اس اہتمام کے ساتھ مضبوط کرنے کا نتیجہ ہی تھا کہ انہیں بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پُرجوش حامی بلکہ محافظ تحفظ کیا گیا۔ شروع میں انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف احتیاط بلکہ نفور کا رویہ ہی برقرار رکھا لیکن جیسے ہی وہ امریکا کے دورے پر گئے، صورتحال بدل گئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس کی راہداریوں میں ان کے نہ جانے کیا راز و نیاز ہوئے، وہ ان پر فریفتہ ہوگئے۔ یہ تو امریکی دورے سے واپسی پر انہوں نے خود کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک اور ورلڈ کپ جیت کر پاکستان لوٹے ہیں۔
وہ کیسا ورلڈ کپ جیت کر پاکستان لوٹے تھے؟ عمران دور کے ایک مختصر سے جائزے سے یہ راز کھل جاتا ہے۔ حزبِ اختلاف اور ریاستی اداروں کے مسلسل مشورے اور کوششوں کے باوجود انہوں نے معیشت کو مستحکم نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اقتصادی عدم استحکام کے ساتھ قومی دفاع مسلسل کمزور ہوتا چلا گیا اور امریکا میں مائیک پومپیو جیسے رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ بناکر پیش کیا جاتا رہا لیکن اس کے باوجود عمران انتظامیہ کا ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلق بھی گہرا ہوتا چلا گیا جس سے امریکی حکومت اور عمران خان کے مقاصد کے بارے میں سوالات پیدا ہوئے اور وقت گزرنے کے ساتھ جن کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے مخالفین کے ساتھ عمران خان کے بڑھتے ہوئے تعلق نے ان کی حکومت سے محرومی کے بعد کیا شکل اختیار کی؟ یہ بھی کچھ ایسا راز نہیں۔ چند ماہ قبل ‘دی اکنامسٹ’ نے لکھا تھا کہ پاکستانی معیشت کے سب سے بڑے دشمن عمران خان ہیں، حکومت کی حکمتِ عملی کے نتیجے میں معیشت جیسے ہی طاقت پکڑنے لگتی ہے، وہ کوئی مہم جوئی کرکے اسے صدمہ پہنچا دیتے ہیں۔ ‘دی اکنامسٹ’ کی اس خبر کی مسلسل تصدیق ہوتی رہی لیکن عمران خان کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین کے طرزِ عمل نے تو تمام پردے ہٹا دیے۔ انہوں نے قومی مفادات کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
پاکستانی معیشت کو غیر مستحکم کرنے کے بعد عمران خان کا دوسرا قدم اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ انہیں عدالتوں سے سہولت ملتی ہے اور کیسے ملتی ہے، یہ بھی ایک اہم معاملہ ہے لیکن اس سے زیادہ اہم بات وہ طرزِ عمل ہے جو انہوں نے اپنی گرفتاری سے بچنے کے لیے اختیار کیا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے زمان پارک پر موجود جتھوں نے جس طرح پولیس پر حملے کیے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، اس کی مثال پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔
زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ پر مسلح لوگوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی آئیں۔ بعد میں پولیس پر براہِ راست فائرنگ کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ ان سب واقعات سے یہ تاثر قوی ہوا کہ زمان پارک پر کسی ہجوم نے مزاحمت نہیں کی بلکہ وہ تربیت یافتہ گوریلے تھے جنہوں نے کسی منصوبے کے تحت ساری کارروائی کی۔ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کارروائی کیا معنی رکھتی ہے؟ اس سوال کا جواب 2 بیانات سے ملتا ہے۔
حال ہی میں وزیرِاعظم شہباز شریف اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے بیانات میں یہ واضح کیا ہے کہ معاشی دباؤ کا حربہ استعمال کرکے پاکستان کو اس کے دفاعی پروگرام اور ہتھیاروں سے محروم کرنے کی ہر سازش ناکام بنا دی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے دفاع کو جس سازش کا شکار بنایا جا رہا تھا، وہ سازش اب اپنے عروج پر ہے اور حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اگر وہ اقتصادی بحالی چاہتی ہے تو اپنے دفاع پر مفاہمت کے لیے تیار ہوجائے۔
کسی ملک کا دفاع اور اسٹریٹجک اثاثے 2 چیزوں کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں۔ اوّل معیشت اور دوم داخلی استحکام۔ جس ملک کی معیشت داؤ پر لگ جائے اور یہ تاثر قوی کردیا جائے کہ جتھے ریاست کو یرغمال بنا سکتے ہیں اور شکست دے سکتے ہیں، تب سب سے پہلے اس کا دفاع اور اثاثے عالمی قوتوں کی نگاہ میں آجاتے ہیں۔ عمران خان نے طالبان کے ساتھ اپنے غیر متزلزل اتحاد، اپنی رہائش گاہ پر طالبان عسکریت پسندوں کو جمع کرکے اور ان کے ذریعے ریاستی اداروں پر حملے کروا کر پاکستان کے دفاع کے خلاف پاکستان دشمنوں کا مقدمہ مضبوط کردیا ہے۔ لہٰذا اب یہ کہے بغیر بالکل چارہ نہیں ہے کہ عمران خان نے ملک کی سلامتی کو کئی اعتبار سے خطرے میں ڈال دیا ہے۔