درد دل کے واسطے                 

اتوار 5 مئی 2024
author image

صنوبر ناظر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہائے ہائے ان موئے ہندو چماروں کو کون اس گلاس میں پانی دیے؟ اب انوں کے بھی چاؤ چونچلے کیے جاویں گے؟  پھینکیو اس ناس مارے گلاس کو کوڑے دان میں …ناپاک کر دیوں میرے جہیز میں چڑھے برتنوں کو، آج صبح سے نانی نے آسمان سر پر اٹھایا ہوا تھا۔

گلی کی صفائی کرنے والے ایک خاکروب نے پیاس لگنے پر پانی مانگا۔ میں نے بنا سوچے سمجھے باورچی خانے کے مچان پر رکھے تام چینی کے گلاس میں پانی بھر کر خاکروب کو پکڑا دیا۔ مجھے ہمیشہ سے یہی سکھایا گیا تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ گھر کے کسی برتن میں کچھ لینا دینا نہیں ورنہ برتن ناپاک ہو جاتے ہیں اور گناہ بھی لازم ہو گا۔

ہمارے گھر میں شیشے کے گلاس میں پانی پینے کا چلن تھا تو میں نے یہی مناسب سمجھا کہ شیشے کے گلاس کے بجائے اس بے کار قدیم گلاس میں ہی پانی دے دیا جائے۔ لیکن شومئی قسمت کہ عین موقع پر نانی  نے خاکروب کو گلاس واپس دیتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ورنہ نانی  کے فرشتوں کو بھی اس واقعہ کا علم نہ ہوتا۔

میری نانی کا بچپن دلی 6 میں گزرا تھا۔ نانی کی اماں مدراس کی اور ابا ٹھیٹ پرانی دلی کے تھے۔ تقسیم کے بعد نانی کا خاندان ہجرت کر کے سیدھا کراچی آ کر بس گیا تھا۔

میں سوچتی کہ نانی کو ہندؤوں اور ہندوستان سے اتنی حقارت کیوں؟  جبکہ ان کی جڑیں تو وہیں سے جڑی ہیں۔ وہ ہم بچوں کو بچپن سے دلی 6 اور اس کے گرد و نواح کے قصے رندھی ہوئی آواز میں اکثر سنایا کرتیں، لیکن جب بات ہندوؤں کی آتی تو لہجہ تلخ اور حقارت آمیز ہو جاتا۔

اسکول کے نصاب میں بھی ہمیں یہی پڑھایا گیا کہ ہندو بنیئے ہوتے ہیں، ’بغل میں چھری، منہ پر رام رام …….‘

میں اپنی نانی کے گھر کب سے ہوں یہ تو نہیں معلوم پر جب سے ہوش سنبھالا خود کو امی کے علاوہ نانا، نانی کی صحبت میں ہی پایا۔ نانا تو جلد چل بسے تھے سو امی اور نانی ہی میری دنیا تھیں۔

 ہمارا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے یا شاید اسے بھی کم، بچپن سے مجھے سانس لینے میں دقت ہوتی تھی۔ سانس پھول جاتا اور تکلیف ناقابل برداشت ہوجاتی، امی مجھے کبھی ایک تو کبھی دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگتیں لیکن وقتی آرام کے علاوہ کوئی افاقہ نہ ہوتا۔

پھر کسی نے مشورہ دیا کہ دل کے ماہر ڈاکٹر کو دکھاؤ تب امی اور نانی پر انکشاف ہوا کہ میرا دل مکمل طور پر کام نہیں کر رہا۔

 میرے لیے مخصوص عارضہ قلب کی دوائیوں پر انحصار کرنا لازمی ہو گیا تھا۔

میں اسکول سے گھر آتی تو نانی ہی گھر پر میری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہوتیں کیونکہ امی کی آفس سے واپسی شام تک ہی ہوا کرتی تھی۔

 بٹیا آج اِتی دیری کیوں ہو گئی؟  کھانا کھالیو آج تمہاری پسند کے ’پسندے‘ بنائے ہیں میں نے۔ نانی نے پیار سے کہا۔

پسندے ہمممم ….نانی رات کو کھاؤں گی مزے سے، ابھی تو پیٹ بہت بھرا ہوا ہے۔

کیا کھا آئی ہو؟  پھر کوئی الا بلا ڈھونس لیے ہوگا؟

ارے نہیں نانی …. ہمارے اسکول سے ذرا فاصلے پر ایک لڑکی رتنا دی دی نے پاؤ بھاجی اور وڑا پاؤ کا ایک ٹھیلا لگایا ہے۔ نانی قسم سے کیا مزیدار اور ذائقہ دار اففف….اتنا رش ہوتا ہے ان کے ٹھیلے پر کہ باری آتے آتے اتنی دیر ہو گئی۔

میں نانی کو منہ ہاتھ دھوتے ہوئے پورا قصہ سنانے لگی۔

کیا کہہ ریو ہو بٹیا؟  تم کاہے کو ایک ہندو کے ہاتھ کا پکا ہوا کھا آئی۔تمہیں اِتی بھی عقل نہیں۔ کتی بار ہم نے سمجھایا تم کو کہ کبھو گھر کے برتن میں انوں کچھ نہیں دینا اور تم اُنی ہاتھ کا ہی پکا کھالیو ہو۔  نانی روہانسی ہوئے جارہی تھیں۔

میں شرمندہ ہوگئی اور ان کی دل آزاری کرنے پر معافی مانگی۔

 کُلی کریو سہی سے اور وضو بھی۔ نانی نے مجھے تنبیہہ کی اور بات آئی گئی ہو گئی۔

ایک رات میری حالت بہت بگڑ گئی۔ اسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں میری ای سی جی اور ایکو ہوا تو معلوم پڑا کہ مجھے معمولی دل کا دورہ پڑا تھا۔ چند دن اسپتال میں علاج کے بعد گھر واپس آگئے۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے میرے دل کا علاج کینیڈا یا انڈیا سے کروانے کا عندیہ دیا تھا کہ ہمارے ملک میں ان سہولتوں کا فقدان ہے جو پڑوسی ملک یا امریکا، کینیڈا میں باآسانی میسر تھیں۔

امی نے دھڑا دھڑ کینیڈا کے اسپتالوں میں فون کھڑکھڑانے شروع کر دیے۔

’اماں کینیڈا جانے آنے اور علاج پر کروڑوں کی لاگت آرہی ہے۔ میں کہاں سے اور کیسے بندوبست کر سکتی ہوں۔ کئی روز سے مدد کے لیے کیمپین بھی چلا رہی ہوں پر کون کتنی مدد کرے گا؟ ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ہمارے پاس وقت بھی بہت کم ہے۔ ’رات سوتے ہوئے امی دل برداشتہ ہو کر نانی سے بولیں، میں غنودگی میں تھی۔

امی نے اب دوسرے آپشن پر کام شروع کیا اور انڈیا کے اعلیٰ پائے کے اسپتالوں کے  امراض قلب کے ماہر  ڈاکٹروں سے رابطہ کرنا شروع کر دیا۔

انڈیا میں کتی لاگت آرییے ہے؟  نانی نے امی سے ایک دن پوچھا۔

انڈین 35  لاکھ ….پاکستانی روپے میں تقریباً ایک کروڑ۔

اتا فرق……اَپن کے پاس کِتے روپیے ہیں؟ ۔

اماں آدھے بھی نہیں، امی پریشانی سے بولیں۔

پھر دونوں جانب خاموشی چھا گئی۔

امی نے چنئی کے ایک ماہر امراض قلب سے رابطہ کیا اور انہیں سچائی سے بتا دیا کہ ان کے پاس اس سرجری اور علاج کے لیے درکار پیسے نہیں ہیں۔

  آپ آ جائیں، باقی ہم سنبھال لیں گے….. اسپتال کے سب سے مایہ ناز ہارٹ اسپیشلسٹ اور دیگر ڈاکٹروں نے امی کی ہمت بندھائی۔

میرے علاج کے لیے ایک بھارتی فلاحی تنظیم نے بھرپور مالی معاونت کی اور جو کمی بیشی رہی وہ ڈاکٹر بالا نے پوری کی۔

میری حالت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی مجھے نہیں خبر کب کس طرح میں نے ہوائی سفر کیا۔

جب ہوش میں آئی تو ایک اسپتال کے کمرے کے بستر پر لیٹی تھی۔ بیڈ کے دونوں جانب مشینیں لگی تھیں اور چند ڈاکٹر میرے ارد گرد موجود تھے جن کے روشن اور محبت سے لبریز چہرے مجھے تسلی اور امید دے رہے تھے۔

آپ کی بیٹی کے دل کا ٹرانسپلانٹ کرنا ہوگا، ہم نے بھارت کے تمام ہارٹ ڈونرز کو اطلاع دے دی ہے، لیکن ایک ارچن ہے۔ ڈاکٹر بالا نے کہا، امی نے ڈاکٹر کی طرف بنا کچھ بولے سوالیہ نگاہ ڈالی۔

 بھارت میں ٹرانسپلانٹ پالیسی کے تحت کسی بھی جسمانی عضو کے عطیے کے لیے پہلی ترجیح بھارتی شہری کو ہی ملتی ہے۔ اس لیے آپ کو انتظار کرنا ہوگا  کہ کوئی ڈونر ایسا ملے جس کا کوئی اور امیدوار نہ ہو۔

ہم میں سے کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ انتظار کتنا طویل ہو گا لیکن یہی ایک آخری امید تھی۔

10 ماہ بعد ہم سب کی امیدیں بر آنے کا موقع آرہا تھا۔

ڈاکٹر بالا کی کوششوں سے دلی کے ایک خاندان نے ایک ادھیڑ عمر  شخص کا دل مجھے عطیہ کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔

اماں اپنی بٹیا کے لیے دل کا عطیہ مل گیا ہے کل آپریشن ہے۔ امی نے نانی کو موبائل پر خوش خبری سنائی۔

اللہ تیرا شکر ہے … کونو ہے؟

 مسلمان آدمی ہے نا جن کا دل بٹیا کو لگارییے ہیں؟

نہیں امی …. ہندو ہے۔

دونوں جانب ایک لمبا سکوت……..

لیکن امی کے چہرے پر ڈاکٹر بالا،  اسپتال کے پورے عملے،  دلی سے دل عطیہ کرنے والے مریض اور ان کا خاندان، مالی مدد کرنے والا ہندوستانی ادارہ اور پورے ہندوستان کے لیے احسان مندانہ مسکراہٹ تھی۔

دلی سے 5 گھنٹے کی مسافت کے بعد دل چنئی پہنچا۔ ڈاکٹروں نے اسے دوبارہ زندہ کیا۔ 19 سالہ بیمار اور لاغر قوت مزاحمت والی لڑکی کے سینے میں ادھیڑ عمر دل لگانا واقعی دل گردے کا ہی کام تھا جو ڈاکٹر بالا اور ان کی ٹیم نے احسن طریقے سے سرانجام دیا۔

میرا سینہ دل لگانے کے بعد کئی دن کھلا رکھا گیا کہ خدا نخواستہ اگر کوئی پیچیدگی ہو تو فوری دوبارہ سرجری کی جا سکے۔ اس پورے عرصے میں ڈاکٹر بالا کے علاوہ آئی سی یو میں ڈاکٹر سریش اور ان کی ٹیم نے بھی پوری جانفشانی سے مجھے زندگی اور موت کے بیچ معلق ہونے سے بچالیا تھا۔

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں

یہ سچ ہے اگر مجھے یہ دل نہ ملتا تو آج میں اپنی کہانی سنانے کے لیے زندہ نہ ہوتی۔

اتنے عرصے بعد وطن واپسی پر نانی نے ہمارا استقبال کرنے کے لیے گھر کو خوب سجایا ہوا تھا۔

نانی میری بلائیں لے رہی تھیں، چوم رہی تھیں اور بار بار سینے سے لگا رہی تھیں اور میں سوچ رہی تھی کہ جن کے ساتھ ہم اپنے برتن تک بانٹنا پسند نہیں کرتے تھے آج میرے سینے میں ان کا دل دھڑک رہا ہے……… پورا ہندوستان دھڑک رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp