سانحہ 9 مئی کی پہلی برسی پر یاد آیا کہ ’ماچس کی تیلی کا سر ہوتا ہے لیکن اس میں دماغ نہیں ہوتا‘۔ یقیناً سیاست تدبیر ہے ٹکراؤ نہیں، مگر نئے پاکستان کے دعویدار جب پرانے پاکستان میں لوٹے تو ’میں نہ مانوں‘ اور ’ون مین شو‘ کے زعم میں جل گئے مگر بل نہیں گئے بلکہ آجکل پھر مذاکرات کا، کاسہ تھامے نظرِ کرم کے منتظر ہیں۔
ماضی قریب کی بات ہے جب 8 مارچ 2022 کو حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں (پی ڈی ایم) نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور آئین کے آرٹیکل 54 تھری کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا تھا کہ عمران خان نے گزشتہ 4 برس میں معاشی اور سماجی لحاظ سے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا اس بدحالی کی نظیر نہیں ملتی۔ ادھر ’عمرانی حکومت‘نے حزب اختلاف پر بین الاقوامی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا تھا۔
وزیراعظم عمران خان نے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہوں، کیا اپوزیشن اس کے لیے تیار ہے کہ عدم اعتماد ناکام ہوئی تو میں ان کے ساتھ کیا کروں گا؟ بہرحال تحریک عدم اعتماد جمع ہو جائے تو اسپیکر 2 ہفتوں میں اجلاس بلانے کے پابند ہیں، قانون کے مطابق قرارداد پیش ہونے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 دن سے قبل اور 7 دن کے بعد نہیں ہوسکتی۔
مزید پڑھیں
آئین کی شق 58 کے تحت قومی اسمبلی کے 172 ارکان عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیں تو وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخلوط حکومت کے پاس 176 ارکان تھے، جب کہ حزب اختلاف کے ارکان کی تعداد 162 تھی۔ لیکن اس بار بھی وہی ہوا جو اس سے قبل ’ضمیر کی آواز‘ پر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ہوچکا تھا۔
طَوعاً و کَرہاً 22 مارچ کا اجلاس 25 مارچ کو بلایا گیا جو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے مرحوم اراکین کے لیے دعائے مغفرت کے بعد فوری طور پر 28 مارچ 2022 تک ملتوی کردیا۔28 مارچ کو تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 ووٹ پڑے، قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس 31 مارچ کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا۔
31 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے اجلاس شروع ہوا تو چند ہی منٹوں میں 3 اپریل کو دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ پھر3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت مسترد کردیا۔ صدر عارف علوی نے فوری طور پر وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کردی۔ اس پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
7 اپریل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اور عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کرنے کا حکم سنایا تھا۔
9 اپریل کو بھی سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کرائی گئی بلکہ رات گئے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیدیا۔ پھر ایاز صادق نے پینل آف چیئرمین کی حیثیت سے اجلاس کی کارروائی جاری رکھی۔ اجلاس 10 اپریل کی صبح 12 بجکر 2 منٹ پر ملتوی کردیا گیا۔ تاہم کچھ دیر بعد نئے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد 174 ووٹوں سے منظور کرلی گئی اور عمران خان ایوان کا اعتماد کھو بیٹھے۔
11 اپریل 2022 کو نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ اپوزیشن کی جانب سے شہباز شریف اور تحریک انصاف کی جانب سے شاہ محمود قریشی وزیراعظم کے امیدوار تھے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کے بعد شہباز شریف 174 ووٹ لیکر پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔
قبل ازیں 8 اپریل 2022 بروز جمعہ کو عمران خان نے بطور وزیراعظم اپنی آخری تقریر میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے اور سڑکوں پر نکلنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ سب نے اتوار کو عشا کے بعد نکلنا ہے اور پرامن احتجاج کرنا ہے، یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ نے غلامی قبول نہیں کرنی۔
13 اپریل 2022 کو پشاور میں وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کے بعد پہلے جلسہ عام میں کہا تھا پوری قوم اتوار کو باہر نکلی۔ امپورٹیڈ حکومت نا منظور، ہم کسی بیغیرت حکومت کو نہیں مانتے۔ غیرت مند عوام کو بیغیرتوں کے خلاف کھڑا کروں گا۔ جس دن کال دیدی تمہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ یہ 1970 کا پاکستان نہیں جب میر جعفروں نے بھٹو کو پھانسی لگائی تھی۔ حقیقی آزادی کی جنگ آج سے شروع ہے، میں خطرناک ثابت ہوں گا۔
پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا لہجے کی تلخی اور اقتدار سے دوری نے وہ وقت بھی دکھایا جب جرنیلوں کو غدار اور میر جعفر تک کہا گیا۔ چڑیا گھر سے آنے والی کالز کے تذکرے اور مسٹر ایکس اور وائے کے کردار بھی گھڑے گئے۔ زمان پارک میں بیٹھ کر جیل بھرو تحریک چلائی گئی، لانگ مارچ کا ڈول بھی ڈالا گیا۔ فوجی افسران کو ڈرٹی ہیری کہا گیا۔ پارٹی رہنماؤں سے اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی بھی کرائی گئی۔ 8 ہزار 333 ڈالر ماہانہ پر امریکا میں لابنگ فرم کی خدمات بھی لی گئیں۔
پیشیوں پر عدالتوں پر یلغار بھی کی گئی۔ زمان پارک کے باہر ورکرز کی انسانی ڈھال بھی بنائی گئی، آئی جی اور جج صاحبان کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔ گرفتاری کی صورت میں پارٹی کو فوری ردِعمل کا پلان بھی دیا جس کے تحت سانحہ 9 مئی بَپا کیا گیا پھر باقی سب تاریخ ہے۔ ٹکر والے لوگ اور ’خان ہماری ریڈلائن‘ والے کچھ ملک چھوڑ گئے اور کچھ سیاست، اور کچھ سُورما تاحال روپوش ہیں۔ سزائیں نہ ملنے پر عسکری اداروں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے والے دوبارہ یلغار اور قبضے کے دعوے کر رہے ہیں۔
چند دن قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا تھا کہ عمران خان کو مزید قید رکھنا اب کسی کے بس میں نہیں۔ کوئی طاقت ہمیں بانی پی ٹی آئی سے دور نہیں کرسکتی، ادارے بھی سن لیں مائنس عمران خان تمہارا باپ بھی نہیں کرسکتا۔ اگر ہمیں حق نہ ملا تو ہم اسلام آباد پر قبضہ کریں گے، خیبر پختونخوا نکلے گا اور بانی پی ٹی آئی کو رہا کروا کر ہی جائے گا۔
مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ کوئی شخص تمہاری پیٹھ پر سوار نہیں ہوسکتا جب تک وہ جھکی ہوئی نہ ہو۔