ایک تھا جلیانوالہ باغ

پیر 15 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

دو روز قبل 13 اپریل کو سانحہ جلیانوالہ باغ کو 105 برس مکمل ہوئے، 1919 میں اسی روز برطانوی فوج کے ایک بد دماغ افسر نے یہاں ہندوستانیوں کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ کرنل ریجنالڈ ایڈورڈ ہیری ڈائر (Colonel Reginald Edward Harry Dyer) کو قتل عام کے لیے عارضی طور پر برگیڈئیر جنرل کا عہدہ دے کر جالندھر کنٹونمنٹ بورڈ سے امرتسر ٹرانسفر کیا گیا تھا۔ ڈائر کی وجہ شہرت ہندوستانیوں سے نفرت تھی۔

جنوری 2011 میں دورہ بھارت کے دوران بذریعہ واہگہ بارڈر وطن واپسی کے لیے امرتسر پہنچے تو گولڈن ٹیمپل کے ساتھ ساتھ تاریخی جلیانوالہ باغ خاص طور پر دیکھا تاکہ برصغیر کی آزادی میں بنیادی کردار ادا کرنے والی ’یادگارِ بربریت‘ کا مشاہدہ کیا جائے اور جان کی قربانی دے کر آزادی کی شمع روشن کرنے والے سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکے۔ اقبال نے کہا تھا:
ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوؤں کا بخل نہ کر اس نہال سے

جلیانوالہ باغ سردار ہمت سنگھ کے خاندان کی ملکیت تھا، جو مہا راجا رنجیت سنگھ کا مصاحب تھا۔ قریباً 7 ایکڑ پر مشتمل جلیانوالہ باغ چاروں طرف سے اونچے مکانات میں گھرا ہوا ہے، جبکہ باغ میں آمد و رفت کے لیے بھی ایک تنگ سی گلی (اندرون لاہور کی طرح) سے گزرا جاتا ہے۔ 1919 کے قتلِ عام کی ایک بڑی وجہ لوگوں کے لیے وہاں سے نکلنے کا رستہ نہ ہونا بھی تھا، جہاں جنرل ڈائر کے سپاہی کھڑے اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے۔

فیاض راجا، ڈاکٹر سعدیہ کمال، گروپ لیڈر علی عمران، سعدیہ حیدری اور راقم مشکورعلی

کہا جاتا ہے کہ شام کو 5 سوا 5 بجے جنرل ڈائر 90 فوجیوں کے ہمراہ جلیانوالا باغ پہنچا تھا۔ اس نے سپاہیوں کو انتباہ دیے بغیر فائرنگ کا حکم دیا، براہِ راست نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا اور 303 کیلیبر کے 1650 کارتوس فائر کیے گئے تھے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 379 افراد ہلاک (275 افراد گولیوں سے مرے جبکہ 104 لاشیں کنویں سے برآمد کی گئی تھیں) اور 1200 زخمی ہوئے تھے، تاہم آزاد ذرائع ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد اور زخمیوں کی تعداد 2600 سے زائد بتاتے ہیں۔

تنگ سے گلی میں بنا کسی داخلی ٹکٹ کے داخل ہوتے ہی دیوار پر آپ کو ایک تحریر ملتی ہے ’جنرل ڈائر فوجی سپاہیوں کے ساتھ بیگناہ ہندوستانیوں پر گولی چلوانے کے لیے اس راستے سے داخل ہوا تھا۔‘ باغ میں پہنچنے پر ایک بلند دیوار پر گُرمُکھی، سنسکرت اور انگریزی میں جلیانوالہ باغ کے دھاتی حروف آویزاں ہیں جبکہ ایک بورڈ پر تینوں زبانوں میں یادگار کی مختصر تاریخ بھی درج ہے۔

یکم اگست 1920 کو جلیانوالہ باغ کو حکومت نے 5 لاکھ 65 ہزار روپے میں خرید لیا تھا لیکن تقسیم ہند تک یہاں یادگار تعمیر نہیں کی جاسکی تھی۔ ’امرتسر کا قصائی‘ جنرل ڈائر جو 9 اکتوبر 1864 کو مری (پنجاب، پاکستان) میں پیدا ہوا تھا، اسے شدید احتجاج کے بعد معطل کرکے برطانیہ بھیج دیا گیا تھا، جہاں وہ 62 برس کی عمر میں 24 جولائی 1927 کو برین ہیمرج سے موت کا شکار ہوا تھا۔

فیاض راجا، مشکورعلی، اویس یوسفزئی، سعدیہ حیدری اور ڈاکٹر سعدیہ کمال

وائسرائے ہند لارڈ چارلس ہارڈنگ (Charles Hardinge) نے سر مائیکل فرانسس اوڈائر کو 1913 میں گورنر پنجاب مقرر کیا تھا اور جلیانوالہ باغ کا قتل عام ان کی ہدایت پر ہی ہوا تھا۔ 13 مارچ 1940 کو شہید اُدھم سنگھ نے جلیانوالہ قتلِ عام کا بدلہ لینے کے لیے لندن میں مائیکل اوڈائر کو قتل کردیا تھا۔ 31 جولائی 1940 کو ادھم سنگھ کو 40 برس کی عمر میں پھانسی دیدی گئی تھی۔

حکومت ہند کی جانب سے ادھم سنگھ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جلیانوالہ باغ میں یادگار شہدا تعمیر کی گئی تھی، جس پر اس وقت 9 لاکھ 25 ہزار روپے لاگت آئی تھی۔ یادگار کا افتتاح بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے 13 اپریل 1961 کو کیا تھا۔ اس موقع پر بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو بھی موجود تھے۔ یادگار کو ’شعلہ آزادی‘ (The Flame of Liberty) کا نام دیا گیا تھا۔

جلیانوالہ باغ میں یادگاری مینار بھی بنایا گیا ہے، سرخ اینٹوں سے بنائے گئے مینار کو اشوکا چکر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہاں آنے والی معروف شخصیات اس مقام پر پھولوں کا نذرانہ پیش کرتی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کوئین ایلزبتھ دوم 1961، 1983 اور 1997 میں یہاں کا دورہ کرچکی ہیں، انہوں نے سانحے پہ معافی مانگنے کے بجائے محض اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا تھا ’ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا لیکن سبق ضرور سیکھا جا سکتا ہے۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 379 افراد ہلاک افراد میں سے 104 لاشیں کنویں سے برآمد کی گئی تھیں، تاہم ان کی تعداد کہیں زیادہ تھی، شہدا کے کنویں کے اردگرد بھی ایک چھوٹی یادگار بنادی گئی ہے، جس کے چاروں جانب لگی کھڑکیوں سے ’موت کے کنویں‘ کو دیکھا جا سکتا ہے۔

جلیانوالہ باغ میں 105 برس قبل فائر کی گئی گولیوں کے نشان آج بھی دیکھنے والوں کو جرمِ ضیعفی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ گولیوں کے نشانات کو محفوظ کرلیا گیا ہے، سرخ اینٹوں سے بنی قدیم محرابی دیوار پر گولیوں کے نشان سفید رنگ سے واضح کیے گئے ہیں۔

باغ کے اردگرد واقع مکانات کی دیواروں پر موجود نشانات کو بھی قومی یادگار کا درجہ حاصل ہے، اس لیے گھروں کی مرمت پر سرکاری پابندی عائد ہے۔

بھارت کی مرکزی حکومت نے 2019 میں قتل عام کے 100 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے یادگار کی تزئین و آرائش کے لیے اڑھائی ملین ڈالرز (قریباً 20 کروڑ بھارتی روپے) مختص کیے تھے۔ فروری 2019 میں یادگار کو سیاحوں کے لیے بند کردیا گیا تھا اور اگست 2021 میں دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

13 اپریل 1919 سے واپسی انتہائی تکلیف دہ تھی، فائرنگ کی تڑ تڑاہٹ، لوگوں کی بھگدڑ اور فلک شگاف چیخوں سے کان بجنے لگے تھے۔ جلیانوالہ باغ کی تنگ سی گلی سے باہر نکلتے ہوئے اقبال لاہوری کا شعر ذہن میں کلبلا رہا تھا:

افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp