سینیئر صحافی اور تجزیہ کار ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاالحق کے دور میں لگنے والی صحافتی پابندیوں نے بعض مسائل کے ساتھ ساتھ ذمہ دارانہ صحافت کو بھی فروغ دیا۔ ذمہ داری ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھٹو بلاشبہ مقبول لیڈر تھے لیکن انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کے بجائے اپنے اقتدار کے لیے اداروں کی سپرمیسی قبول کی اور پارلیمنٹ کو کمزور کردیا، جسے ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
بینظیر اور نواز شریف کے حوالہ سے ان کا کہنا تھا کہ بینظیر آکسفورڈ سے پڑھی ہوئی ہونے کے باوجود جاگیردارانہ سوچ رکھتی تھیں اور نواز شریف نے صنعتکار ہونے کے باوجود اپنے آپ کو جاگیردار بنانے کے لیے زمینیں خریدیں، جس کی وجہ سے ان کی سوچ میں فرق آگیا اور انہوں نے جاگیرداروں کو اپنی پارٹی میں اہمیت دینا شروع کردی۔ جبکہ عمران خان موجودہ دور کا مقبول ترین لیڈر ہونے کے باوجود پارلیمنٹ میں قانون سازی کے لیے باجوہ اور جنرل فیض کا مرہون منت ہوگئے اور نتیجتاً اقتدار گنوا بیٹھے۔
سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں شاعر، صحافی، محقق اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کو کم سے کم تر درجے پر رکھا گیا ہے، نہ ان کو کُھل کر بولنے کی آزادی ہے اور نہ سوچنے کی، ایسے حالات میں کوئی معاشرہ بھی ترقی نہیں کرسکتا، اور جس طریقہ سے موجودہ نظام کو چلانے کی کوششیں ہو رہی ہیں یہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔