بھارتی انتخابات میں کن اداروں پر مداخلت کے الزامات لگائے گئے؟

بدھ 8 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزمات خفیہ اداروں پر لگائے جاتے ہیں اور کئی حکومتی اداروں پر سیاسی انجینیئرنگ میں ملوث ہونے کے الزمات کا سامنا رہتا ہے لیکن بھارت میں دھاندلی کا الزام خفیہ ادارے پر نہیں لگایا جاتا یہاں تک کہ وہاں کے انتخابات کے دوران ان کی خفیہ ایجنسی کا ذکر تک نہیں ملتا تاہم ٹیکس اور سیکیورٹی کے دوسرے اداروں پر سیاسی انجینیئرنگ میں ملوث ہونے کا الزام وہاں بھی لگایا جاتا ہے۔

اس وقت انڈیا میں الیکشن کمشین کو سب سے زیادہ تنقید کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ (آئی ٹی)، سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) پر الزمات عائد کیے جا رہے ہیں کہ وہ اپوزیشن جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو ہراساں کرتے ہیں۔

 

’بی جے پی بدعنوانوں کے لیے ایک واشنگ مشین‘

انڈین ایکسپریس نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بی جے پی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے لیے ’واشنگ مشین‘ کی طرح کام کر رہی ہے۔ حالیہ الیکشن سے قبل 23 اپوزیشن رہنماؤں کے بدعنوانی کے مقدمات اس وقت ختم کیے گئے جب انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔

رپورٹ کے مطابق جن لیڈروں نے بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی پارٹی چھوڑ کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ان میں کانگریس سے 10، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور شیوسینا سے 4،4، ترنمول کانگریس سے 3، تیلگو دیشم پارٹی سے 2 اور سماج وادی پارٹی اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی سے ایک ایک شامل ہیں۔

اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریاں، وزیراعلیٰ دہلی بھی اندر

لوک سبھا الیکشن سے کچھ عرصہ قبل ای ڈی نے بدعنوانی کے الزمات میں اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے ان کے خلاف کارروائی کی اور گرفتاریاں بھی کیں۔ سب سے بڑی گرفتاری دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی تھی جنہیں دہلی ایکسائز پالیسی کیس میں گرفتار کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق سنہ 2014 سے ستمبر 2022 تک انڈیا کے 121 اہم سیاسی شخصیتوں کے خلاف انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ (ای ڈی) نے کاروائی کی جن میں سے 115 کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ الیکشن کے قریب آتے  ہی یہ فہرست مزید لمبی ہو گئی۔

الیکٹورل بانڈ کا معاملہ

سب سے دلچسپ معاملہ الیکٹورل بانڈ کا ہے بی جے پی کو ملنے والےالیکٹورل بانڈ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو ملنے والے بانڈ سے دوگنے سے بھی زیادہ تھے۔

انڈیا کی سپریم کورٹ میں الیکٹورل بانڈ کی کیس میں تفصیل سامنے آنے پر دلچسپ انکشافات ہوئے جن کے مطابق بی جے پی نے سنہ 2019 سے 24 جنوری 2024 کے درمیان کل 6060.5 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ کیش کروائے جو باقی تمام جماعتوں کو ملنے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔

انڈیا کی کچھ ڈیجیٹل میڈیا آوٹ لیٹس کے مطابق بی جے پی نے مختلف کمپنیوں سے الیکٹورل بانڈ کے حصول کے لیے انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ اور ای ڈی کا سہارا لیا۔ جس کمپنی کے ٹیکس کی ادائیگی نہ کیے جانے یا بدعنوانی کے الزام میں چھاپا مارا جاتا تو وہ کمپنی کچھ دن بعد الیکٹورل بانڈ بی جے پی کے آفس میں پہنچاتی۔ یوں بی جے پی نے چندہ جمع کرنے کے لیے بھی سرکاری اداروں کا استعمال کیا۔

کانگریس کو 1800 کروڑ روپے کے محکمہ انکم ٹیکس کے نوٹسز

حال ہی میں کانگریس نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں محکمہ انکم ٹیکس (آئی ٹی) کی جانب سے 1800 کروڑ روپے سے زیادہ کے تازہ نوٹس ملے ہیں حالانکہ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نے کانگریس سے پچھلے واجبات کے لیے 135 کروڑ روپے وصول کیے تھے۔

انہوں نے بی جے پی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنے کے لیے آئی ٹی کے ذریعے ’ٹیکس ٹیررازم‘  کر رہی ہے اور کانگریس کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

راہول گاندھی کا مودی پر میچ فکسنگ کا الزام

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی پر قانون نافذ کرنے والی مرکزی ایجنسیوں کا غلط استعمال کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں ’میچ فکسنگ‘ کا الزام لگایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق انڈیا کے 3 سابق چیف الیکشن کمشنروں نے کہا کہ اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کے خلاف انکم ٹیکس (آئی ٹی) ڈپارٹمنٹ اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی حالیہ کارروائیوں سے انتخابات کے دوران مساوی مواقع میں  رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان ہے۔

لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت

الیکشن کمیشن کے سابق عہدیداروں نے اس طرح کے اقدامات کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مداخلت مانا ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کو کم از کم ایجنسیوں سے معلوم کرنا چاہیے کہ ٹیکس کے مطالبات اور آئی ٹی نوٹس کے لیے انتخابات ختم ہونے تک انتظار کیوں نہیں کر سکتے۔

انتخابات میں حصہ لینے والے ہر فرد کو مساوی موقع ملے۔ اگر انتخابی مہم کے دوران ٹیکس ایجنسیاں اہم اپوزیشن پارٹی کو نوٹس جاری کرتی رہتی ہیں، ان کے اکاؤنٹس فریز کر دیتی ہیں یا ان سے پیسے بی نکال لیتی ہیں تو کمیشن کو سی بی ڈی ٹی سے ٹھوس وجہ معلوم کرنی چاہیے کہ ان سب کے لیے انتخابات کے بعد تک انتظار کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کمیشن اور سی بی ڈی ٹی کے درمیان میٹنگ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

سابق سی ای سی نے کہا کہ جب ای ڈی لیڈروں کو ایسے وقت میں پوچھ گچھ کے لیے بلاتی ہے جب انہیں انتخابی مہم میں شامل ہونا چاہیے تو اس سے مساوی موقع پر اثر پڑتا ہے۔

سابق سی ای سی نے کہا کہ ’کمیشن قومی سلامتی کے معاملوں میں مداخلت نہیں کر سکتا لیکن اگر ان کارروائیوں میں قومی سلامتی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے تو کیا انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ اور ای ڈی 2 ماہ تک انتظار نہیں کر سکتے‘۔

اپوزیشن کے الزامات، سابق ممبران الیکشن کمیشن کی رائے اور الیکٹورل بانڈ کی تفصیل سامنے آنے سے واضح ہوتا ہے کہ انڈیا کے الیکشن میں بھی سرکاری اداروں کا استعمال ہوتا ہے اور وہاں بھی سیاسی انجینئرنگ ہوتی ہے لیکن ان کی خفیہ ایجنسی اس الزام کی زد میں نہیں آتی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp