ہاتھیوں کی لڑائی میں پستی چیونٹیاں

جمعہ 10 مئی 2024
author image

عاصمہ کنڈی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے، یہ جملہ سنتے سنتے عمر گزر گئی اور کان اتنے عادی ہو گئے کہ اس جملے نے اپنی اہمیت ہی کھو دی۔ مگر گزشتہ ایک سال سے یوں لگ رہا ہے کہ اب واقعی وہ نازک لمحہ آن پہنچا ہے جب ملک کو نہ سنبھالا گیا تو بہت دیر ہو جائے گی اور پھر ہاتھیوں کی دھینگا مشتی میں کون صحیح تھا اور کون غلط، اس سے بالا تر نقصان چیونٹی سمیت سب کا ہوگا۔

ملکی حالات تو تحریک عدم اعتماد کے بعد سے ہی ٹھیک نہ تھے، اگر اس وقت ہوش مندی سے کام لیا جاتا اور چوں چوں کا مربہ حکومت بنانے کے بجائے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جاتا تو شاید بہتری کی کوئی سبیل نکل آتی۔ اس وقت اپنی حکومتی کارکردگی کی وجہ سے عمران خان عوام میں بہت زیادہ مقبول نہ رہے تھے مگر ان کا یوں نکالا جانا عوام کو پسند نہ آیا اور وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ عوام میں اپنا امریکہ مخالف بیانیہ بنانے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے۔

جوں جوں ان پر اور ان کی پارٹی پر سختیاں بڑھتی گئیں عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف بھی اوپر جاتا گیا۔ مگر پھر گزشتہ برس 9 مئیکا تاریک دن تھا جب ہمارے قومی سلامتی کے اداروں پرکچھ شر پسندوں کی جانب سے حملہ کیا گیا اور وہ ادارے جو ہمارے قومی وقار کی علامت ہیں ان پر وار کیا گیا۔ ان اداروں پر حملہ پاکستان کے استحکام کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ اس حملے سے فائدہ جس کا بھی ہوا ہو مگر نقصان صرف پاکستان کا ہوا ہے۔ جہاں پاکستان کے استحکام کو مضبوط اداروں کی ضرورت ہے اتنی ہی اہمیت ایک مضبوط قومی سیاسی پارٹی کی بھی ہے جو پورے ملک کی نمائندگی کرے۔

اب تک سانحہ 9 مئیکو ایک برس بیت چکا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستان آج بھی وہیں کھڑا ہے۔ نہ ادارے اور نہ ہی عمران خان اپنی پوزیشن سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔ پی ٹی آئی اور فوج کے مابین معاملات جوں کے توں ہیں اور کشیدگی برقرار ہے، اس کا نتیجہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اور سیاسی استحکام کےبعیر معاشی استحکام اور ترقی کا حصول ناممکن ہے۔

اب ان دو ہاتھیوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس لڑائی میں فائدہ صرف لومڑی کا ہے مگر نقصان سراسر ملک اور عوام کا ہوا، جس کی حیثیت پاکستان میں چیونٹی سے زیادہ نہیں۔ عوام ان با اختیار حلقوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب یہ اپنی لڑائی سے نکل کر عوام کے لیے سوچیں گے۔ مہنگائی کی شرح ملک میں سفید پوشوں کی زندگیاں نگل رہی ہے۔ کوئی غربت کی وجہ سے خاندان سمیت اجتماعی خودکشی کر رہا ہے تو کوئی جرم کا راستہ اپنا رہا ہے۔ آخر کون اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا ہوا دیکھ سکتاہے؟

ہاتھیوں کو سمجھنا ہو گا کہ دونوں لڑائی میں اپنے ہی جنگل کو روند رہے ہیں، لومڑی کا کیا ہے اس کو تو صرف گوشت کھانے سے مطلب ہے چاہے حلال ہو یا حرام، اور اس وقت بھی وہ مزے لے کر کھانے میں مصروف ہے۔ ہاتھیوں کو لچک دکھاتے ہوئے معاملات کو سلجھاؤ کی جانب لے جانا ہوگا۔ اور لومڑی کو بھی وقتی فائدہ چھوڑ کر جنگل کی بقاء کی خاطر آگے بڑھ کر اس لڑائی میں ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے بات چیت کاآعاز کرنا چاہیے۔ ان سب کو مل کر سوچنا چاہیے کہ چیونٹی کی برداشت ختم ہو جائے تو وہ پلٹ کر وار کرتی ہے۔ اس کی برداشت ختم ہونے سے پہلے پہلے ہاتھیوں کو اپنی سمت درست کر لینی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp