آزادکشمیر: عوامی احتجاج جاری، چیف سیکریٹری اور آزاد حکومت کے ایکشن کمیٹی رہنماؤں سے مذاکرات

اتوار 12 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آزاد کشمیر میں جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، ریاست کے مختلف علاقوں سے لوگ دارالحکومت مظفرآباد کی طرف مارچ کررہے ہیں۔

دوسری جانب چیف سیکریٹری آزادکشمیر، آزادکشمیر حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان راولاکوٹ میں مذاکرات ہونے جارہے ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایکشن کمیٹی کے تسلیم شدہ مطالبات پر عملدرآمد کے لیے وقت لیا جائے گا۔

جہاں آزادکشمیر کے دیگر علاقوں سے لوگ مظفرآباد کی جانب مارچ کررہے ہیں وہیں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی کال پر ہزاروں لوگ ہجیرہ سے راولاکوٹ کی طرف مارچ کررہے ہیں اور وہاں سے مظفرآباد کی طرف نکلیں گے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ امکانی طور پر لگ بھگ 10 ہزار کے قریب لوگ راولاکوٹ میں جمع ہوں گے جو مظفرآباد کی طرف مارچ کریں گے۔ لیکن عینی شاہدین کے مطابق ہجیرہ سے راولاکوٹ کی طرف مارچ کرنے والے مظاہرین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

حکومتی احکامات پر انتظامیہ نے مظاہرین کو روکنے کے لیے مشینوں کا استعمال کرکے سڑکوں پر پتھر اور مٹی کے تودے گرائے تاکہ لوگوں کو آگے جانے سے روکا جاسکے۔ لیکن دوسری جانب راولاکوٹ سے آنے والے مظاہرین نے راستہ کھولنے کے لیے ایک ایکسیویٹر مشین ساتھ رکھی ہے تا کہ رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے حکومت آزاد کشمیر کی درخواست پر جو رینجرز بھیجی گئی تھی اس کو کوہالہ کے مقام سے واپس بلا لیا گیا ہے۔

آج آزادکشمیر میں صورتحال مجموعی طور پر پُرسکون ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مختلف جگہوں سے جو قافلے مظفرآباد کی طرف آرہے ہیں ان کو روکنے کے لیے حکومت طاقت کا استعمال نہیں کررہی۔

مظاہرین اور پولیس کی جھڑپوں میں 80 پولیس اہلکار زخمی ہوئے

9 مئی سے اب تک مظاہرین اور پولیس کی جھڑپوں کے نتیجے میں 80 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جبکہ ایک سب انسپکٹر نے جام شہادت نوش کیا۔

ہفتے کے روز کم از کم 64 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے جن میں 2 ڈی ایس پیز شامل ہیں۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ان جھڑپوں میں کتنے عام شہری زخمی ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر سرکاری املاک محفوظ رہیں البتہ چند سرکاری گاڑیوں کو نقصان پہنچا ہے۔

گزشتہ مہینے جموں و کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی نے یہ اعلان کیا تھا کہ مطالبات پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث 11 مئی کو مظفرآباد پہنچ کر اسمبلی کے باہر مظاہرہ کیا جائے گا۔

ایکشن کمیٹی کے اہم مطالبات کیا ہیں؟

ایکشن کمیٹی کی جانب سے سامنے آنے والے 10 اہم مطالبات میں سے 2 اہم مطالبات یہ ہیں کہ بجلی پر بلا جواز ٹیکس ختم کرنے کے علاوہ سیاسی اور انتظامی اشرافیہ کی غیر معمولی مراعات بھی ختم کی جائیں۔

ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت پاکستان سےصرف 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ بجلی خرید تی ہے اور عوام کو نہ صرف مہنگی بجلی فروخت کرتی ہے بلکہ بجلی بلات پر 13 قسم کے چارجز اور ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں۔

ایکشن کمیٹی کے مطابق حکمران غلط طور پر یہ تاثر دیتے رہے کہ یہ مہنگی بجلی اور ان پر جو ٹیکسز اور چارجز ہیں یہ حکومت پاکستان عائد کرتی ہے۔

حکومت اور ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدہ کب طے پایا تھا؟

واضح رہے کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے گزشتہ سال اگست میں بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال کی تھی۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے لیے وزرا پر مشتمل 16 رکنی کمیٹی بنائی جس کے بعد دسمبر 2023 میں فریقین کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کی روشنی میں فروری 2024 میں ایک نوٹیفیکیشن جاری ہوا۔ لیکن مطابات تسلیم کرنے اور سرکاری نوٹیفیکیشن جاری ہونے کے با وجود اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

اس ساری صورتحال کے بعد اپریل کے اوائل میں ایکشن کمیٹی نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 11 مئی کو مظفرآباد کی طرف احتجاجی مارچ کریں گے جہاں وہ اسمبلی کے باہر احتجاج کرنے کا منصوبہ رکھتے تھے۔ احتجاج کے اعلان سے لے کر 11 مئی تک تقریباً ایک ماہ کا وقت تھا لیکن اس بارے میں حکومت نے کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی۔

یہ خالصتاً عوامی تحریک ہے، عوامی ایکشن کمیٹی

اس احتجاج کو ناکام کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کئی بار یہ بیانات دیے گئے کہ یہ عوامی ایجنڈا نہیں بلکہ پاکستان کو بدنام کرنے کا ایک منصوبہ ہے۔

دوسری جانب جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف ہے کہ یہ خالصتاً عوامی حقوق کی تحریک ہے جس کا کسی کے نظریہ سے کوئی تعلق نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp