یادش بخیر کبھی ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے پروگرام ‘ہم سب امید سے ہیں’ پیش کیا جاتا تھا۔ اس پروگرام میں ملک کے مقبول سیاستدانوں کے بہروپ میں بھانڈ سیاستدانوں کی بھد اڑاتے، انہیں نکّو بناتے اور نکما ثابت کرتے نظر آتے تھے۔ شکر ہے کہ پروگرام تمام ہوا وگرنہ ممکن تھا کہ اسی پروگرام میں فنکار، آج جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے سوانگ بھرتے دکھائی دیتے، نتیجے میں اس ٹی وی چینل کو خمیازہ بھگتنا پڑتا اور چینل مالک دہائی دیتا رہ جاتا: ‘یہاں حق گوئی پر انعام کو خمیازہ کہتے ہیں’۔
آج اگر ‘ڈمی اسٹوڈیو’ جاری ہوتا تو اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ بھی لوگ نیوٹرل ہونے کا ناٹک رچا رہے ہوتے۔ وجوہات آپ کے سامنے ہیں کہ موجودہ حالات میں نیوٹرل ہونا ‘اِن’ ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے نیوٹرل رہنے کا نعرہ لگایا، بہت اچھی بات ہے۔ کوئی پوچھے اس میں نعرہ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو آئین میں لکھا جاچکا ہے۔ بات یہ ہے کہ آئین کی پٹڑی پر چڑھتی اترتی مملکتِ خداداد میں آئین شکنی خبر نہیں بلکہ آئین پر اصرار بریکنگ نیوز بنتی ہے۔
فوج نیوٹرل ہوئی تو عجیب معاملہ ہوا کہ ساتھ ہی عدالتیں بھی نیوٹرل ہوگئیں۔ انہوں نے بھی اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ خود قانون چیخ اٹھا ‘غیر کی جانب بھی ہیں اور غیر جانبدار بھی’۔
عمران خان آئین پامال کریں یا قانون توڑیں، پولیس کو دھمکیاں دیں یا خاتون جج کو برسرِ عام للکاریں۔ عدالتیں یکسو ہیں کہ وہ کم از کم عمران خان کی حد تک نیوٹرل رہیں گی۔ نہ قانون حرکت میں آئے گا، نہ تعدیب کی بات ہوگی اور نہ تعزیر کا لفظ ہی نوکِ زبان پر آئے گا۔ سچ یہ ہے کہ جن کے فیصلوں کو بولنا چاہیے تھا ان کی لیک ہونے والی آڈیوز چیخ اٹھی ہیں:
خداوندا! جلیل و معتبر! دانا و بینا منصف و اکبر!
مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر!
وقت پاکستان کو ایسے مقام پر لے آیا ہے جہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہائبرڈ نظام کی چھلنی سے نتھرنے والا پاکستان دو سوچوں میں منقسم ہوگیا ہے۔ ایک سوچ جنرل باجوہ کی ولولہ انگیز قیادت تک جاتی ہے، دوسری سوچ کا سرا مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری اور نواز شریف تھامے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مفادات کی جنگ چل رہی ہے، دوسری طرف ووٹ کی عزت کا نعرہ لگ رہا ہے۔ دونوں سوچوں کا نتیجہ فی الحال ابہام کی صورت میں نکل رہا ہے۔
بیوروکریسی جو باریک واردات کی ماہر ہے، وہ بھی نیوٹرل ہوکر شش و پنج میں مبتلا ہے کہ کس پلڑے میں اپنا وزن ڈالے۔ کچھ کے خیال میں اس ملک میں جمہوریت وغیرہ کا ٹنٹنا نہیں چلے گا۔ کچھ کے دلوں میں انقلاب کروٹیں لے رہا ہے۔ کچھ کے نزدیک حالات بدلنے والے نہیں اور کچھ کی ضد ہے کہ:
وطن کی خاک ذرا ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ہے پانی یہیں سے نکلے گا
پولیس کنفیوژ ہے کہ مظاہرین پر ڈنڈے برسانے ہیں یا مظاہرین سے ڈنڈے کھانے ہیں۔ پولیس تذبذب میں مبتلا ہے کہ اُسے ڈٹ جانا ہے یا ‘نِیویں نِیویں’ اپنی گاڑیاں نذرِ آتش کروانی ہیں۔ پولیس تَردّد کا شکار ہے کہ آنسو گیس مظاہرین پر آزمانا ہے یا خود ہی اس گیس سے دوچار ہوجانا ہے۔ پولیس پس و پیش سے دوچار ہے کہ اپنے جوانوں کا حوصلہ بلند کرنا ہے یا جوانوں کو بلوائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے۔
نیوٹرل ہونے کا فیشن اتنا شدید ہوگیا ہے کہ صحافی بھی نیوٹرل ہوگئے ہیں۔ شام کو ٹی وی پروگرام میں عمران خان کے لتے لیتے ہیں اور رات کو یوٹیوب پر عمران خان کے پیروں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ ٹی وی پر بیٹھ کر تحریک انصاف والوں سے مشکل مشکل سوال کرتے ہیں اور یوٹیوب پر خان کے ساتھ ہونے والے مظالم کی دہائی دیتے ہیں۔ کچھ چینل بھی اس فیشن کا شکار ہوگئے ہیں۔ 7 بجے کے پروگرام میں عمران خان کو فتنہ قرار دیتے ہیں اور 8 بجے کے پروگرام میں انہیں نجات دہندہ ثابت کرنے میں جُٹ جاتے ہیں۔ پہلے فارن فنڈنگ پر پروگرام کرتے ہیں اور وقفے میں شوکت خانم کے چندے کے اشتہار مفت چلاتے ہیں۔
عوام نے بھی نیوٹرل ہونے کی ٹھان لی ہے۔ پہلے وہ عمران خان پر ‘دشنام طرازی’ کرتے ہیں اور پھر اسحاق ڈار کی ‘عزت افزائی’ کرتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کی واپسی کے منتظر رہتے ہیں اور کبھی عمران خان کے سر پر وزارتِ اعظمیٰ کا تاج دیکھنے کے تمنائی ہوتے ہیں۔ کبھی جی ٹی روڈ کا جم غفیر سامنے آتا ہے، کبھی ہر ضمنی انتخاب عمران خان جیت جاتا ہے۔ کبھی مریم نواز کے نعروں کا پُرجوش جواب آتا ہے، کبھی عمران خان کے کہنے پر نعرہ نفرین لگایا جاتا ہے۔ کبھی پی ڈی ایم کے حق میں نعرہ لگتا ہے، کبھی تحریک انصاف کا پرچم بلند ہوتا ہے۔
حالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اب ویڈیوز بھی کارگر نہیں ہو رہیں۔ آڈیو لیکس بھی اپنا اثر کھو بیٹھی ہیں۔ واقفانِ حال کے مطابق عمران خان کی کچھ نازیبا ویڈیوز بھی موجود ہیں، مگر ان کا اجرا محض اس خدشے کی وجہ سے نہیں ہورہا کہ کہیں اس سے خان صاحب کی مقبولیت میں مزید اضافہ نہ ہوجائے۔ دوسری جانب عوام کی دلچسپی کا یہ حال ہے کہ جس روز کوئی آڈیو یا ویڈیو لیک نہ ہو اُس روز تماشے کا لطف نہیں آتا۔ کوئی سنسنی خیز آڈیو یا شرم انگیز ویڈیو منظرِعام پر آتی ہے تو عوام کو کچھ قرار آتا ہے کہ چلو آج کا دن سپھل ہوا۔ شنیدہ داستانوں کی کچھ تلذذ بھری تصدیق ہوئی۔
رہا معاملہ وزیرِاعظم شہباز شریف کا تو وہ فطرتاً نیوٹرل ہیں۔ نہ کبھی انہوں نے بھائی سے بے وفائی کی، نہ کبھی ان کے بیانیے کا ساتھ دیا۔ نہ کبھی انقلاب کا نعرہ لگایا، نہ شب کے پچھلے پہر ہونے والی ملاقاتوں سے انکار کیا۔ نہ کبھی جمہوریت کے ساتھ وفاداری کا دم بھرا، نہ کبھی آمریت کی خَم ٹھونک کر مخالفت کی۔ نہ مریم نواز کو کھلے دل سے لیڈر مانا نہ کبھی ان کی تقرری سے اختلاف کیا۔ دہائیاں ہوگئیں وہ کامیابی سے اس ‘نیوٹرل پالیسی’ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہیں نیوٹرل ہونے کا فائدہ بھی ہوا ہے۔ نواز شریف کے بیرونِ ملک جانے پر اقتدار کا ہُما ان کے سر پر آ بیٹھا ہے۔
اس سارے نظام میں نیوٹرل نہ ہونا جرم ہے، اس جرم کی سزا نواز شریف دیارِ غیر میں بھگت رہے ہیں۔ مریم نواز ٹرولنگ کی صورت میں اس کا سامنا کر رہی ہیں۔ یاد رکھیں، تاریخ بعض اوقات ایسے مقام پر لے آتی ہے جہاں ادارے تو نیوٹرل رہ سکتے ہیں مگر لیڈر نہیں۔ ان کو ایک رستہ چننا پڑتا ہے۔ اب یہ ان کی صوابدید ہے کہ وہ اسٹیبشلمنٹ والا رستہ چنتے ہیں یا عمران خان والا۔ شہباز شریف کی طرح نیوٹرل ہوتے ہیں یا نواز شریف کی طرح ڈٹ جاتے ہیں۔