معروف سماجی کارکن انصار برنی نے اپنے ہی بھائی کی دوغلی پالیسی کا پھانڈا پھوڑ دیا۔ انصار برنی اور صارم برنی پاکستان کے جانے مانے سماجی کارکن ہیں۔ انصار برنی 2007 سے 2008 تک پاکستان کی کابینہ میں انسانی حقوق کے وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔
دونوں بھائیوں کے مابین 2012 سے بات چیت بند ہے تاہم دونوں نے الگ، الگ انسانی فلاحی کاموں کو جاری رکھا ہوا ہے۔
ایک پوڈ کاسٹ میں انصار برنی نے بھائی صارم برنی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘وہ میرا بھائی ہے۔ ہابیل اور قابیل بھی بھائی تھے۔ میں ان کی خوشیوں کے لیے دعا گو ہوں۔ ان کے گھر میں ہمیشہ خوشیاں رہیں، میں بھی اپنے خاندان کے ساتھ خوش ہوں۔‘
انہوں نے باہمی اختلافات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’ ہمیں اپنے استادوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر ہم اپنے استادوں کے خلاف جائیں تو ہم سے بڑا منافق کوئی نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات کی وجہ جعلی شادیاں اور مارننگ شوز میں ان کا دکھاوا تھا۔
بھائی سے راہیں جدا کرنےکے حوالے سے بتایا کہ ایک لائیو ٹی وی شو میں شرکت کرنے پر این جی او سے برطرف کر دیا جس میں ایک ہندو لڑکے کو اسلام قبول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا جو ٹی وی شو کے میزبان اور صارم برنی کا میڈ اپ ڈرامہ تھا۔‘
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ‘میں سات طلاقوں کا ذمہ دار ہوں کیونکہ وہ شادیاں مارننگ شوز میں ہوئیں۔ مارننگ شوز جعلی شادیاں کرواتے تھے جو کہ میرے گلے پڑ گئیں۔ مارننگ شوز میں جو شادیاں ہوتی تھیں وہ صرف ڈرامہ تھیں۔ ‘ ’ہماری این جی او کے تحت مارننگ شو میں جو شادیاں ہوئیں وہ ناکام رہیں، اس کے کوئی مثبت نتائج ہمیں نہ مل سکے لہذا میں خود کو ان طلاقوں کا ذمہ دار سمجھتا ہوں۔‘
انہوں نے ایک اور ہوشربا انکشاف کیا کہ‘ ٹی وی پر بچے بیچے جاتے تھے۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ بچوں کو کس نے گود لیا اور ان بچوں کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا ہے۔‘