نریندر مودی کا الیکشن اور پاکستان

منگل 14 مئی 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج سے ٹھیک دس سال پہلے 21 مئی 2014 کو ہندوستان میں ہونے والے الیکشن میں کامیابی کے بعد بی جے پی کے رہنما نریندرا مودی نے اس وقت کے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو اپنی تقریب حلف برداری پر مدعو کیا۔ اس وقت ہندوستانی اور پاکستانی میڈیا پر چہ میگوئیاں  شروع ہو گئیں کہ آیا نواز شریف مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے یا نہیں۔ نواز شریف نے ایک بولڈ فیصلہ لیا اور اس تقریب میں شرکت کی۔

نواز شریف کے اس دورے کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ دونوں ہمسائیوں میں شاید سرد مہری کی برف پگھلے گی اور تعلقات میں بہتری آئے گی۔ مودی نے اس کے بعد ایک اور اچانک دورہ کیا۔ وہ نواز شریف کی نواسی کی شادی کے موقع پر اپنے دورہ کابل سے واپسی کے بعد لاہور ائیرپورٹ اترے اور نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں ان کی نواسی کی شادی پر مبارکباد پیش کی۔ مودی کے اس gesture کو بڑے پیمانے ہر سراہا گیا لیکن ہم نے دیکھا پاکستان میں بعض عناصر نے اس دورے پر پراپیگنڈا بھی کیا اور پھر دنیا نے دیکھا نواز شریف کو ’مودی کا یار‘ قرار دیا گیا۔

انڈیا پاکستان کے تعلقات پچھلی سات دہائیوں سے Seesaw کی طرح کبھی ایک طرف جھکتےہیں تو کبھی دوسری طرف۔ تمام تر تلخیوں، جنگوں، لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے باوجود دونوں ہمسایوں کے تعلقات کبھی بالکل ختم نہیں ہوئے۔

پچھلی دو، تین دہائیوں سے ہندوستان نے اپنی معیشت پر توجہ دی اور دنیا بھر کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دنیا کی بڑی منڈیوں میں سے ایک کے نعرے کے ساتھ انڈیا سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگیا اور اس کے ساتھ تعلیم، سائنس، اور جدید تکنیکی علوم پر توجہ دے کر اپنے نوجوانوں کو دنیا بھر کی بہترین درسگاہوں میں پھیلا دیا۔ گو کہ یہ ایک لانگ ٹرم پالیسی تھی لیکن اس نے اب ہندوستان کو اچھے نتائج دینا شروع کردیے ہیں۔

انڈیا اب معاشی، دفاعی اور سفارتی محاذ پر اچھے نتائج حاصل کرنے کے بعد صنعتوں کو اپنے ملک کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں پاکستان صنعتوں، تعلیم اور معاشی میدان تو دور زرعی اعتبار سے بھی دن بدن پیچھے جارہا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پیاز ٹماٹر، مرچ اور گندم تک باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان شعبوں میں ہماری تنزلی کی وجوہات کیا ہیں اور ہندوستان کیسے ہم سے آگے نکل گیا؟ یہ سوال اتنے تفصیل طلب ہیں کہ ان پر پورا ایک مقالہ لکھا جاسکتا ہے۔

تاہم اس ترقی کی وجہ سے بھارتی سیاسی قیادت کے پاکستان بارے خیالات اور رویے بھی بالکل تبدیل ہوگئے ہیں۔ ان کے لہجوں میں اب غرور چھلکتا نظر آتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے ایک بھارتی صحافی کو انٹرویو میں پاکستان کے بارے میں جو بیان دیا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر زیادہ توجہ نہیں دینی چاہیے اور بھارت کو اپنے مشن پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنا ملک چلائے، جبکہ بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

ہندوستان کی معیشت تو پچھلے 10-20سالوں سے بہتر ہونا شروع ہوئی ہے جبکہ اس سے پہلے بھی بھارتی قیادت کا رویہ پاکستان کے ساتھ کوئی مثالی نہیں تھا۔ یہ ہمیشہ پاکستان سے ڈائیلاگ کرکے احسان جتلاتے تھے اور یہ تاثر دیتے رہے جیسے پاکستان انڈیا سے تعلقات بحال کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ ہماری سفارتی اور سیاسی قیادت کو بھارت سے تعلقات کے بارے میں اپنی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لینا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھی اس ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتی ہے اور ان کو اہمیت دیتی ہے جو معاشی طور پر مضبوط ہو۔ پاکستان کے موجودہ معاشی حالات سب جانتے ہیں کہ ابتر ہیں اور ایک بار تو ملک دیوالیہ ہونے کے قریب بھی پہنچ چکا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی Territorial Integrity اور sovereignty پر سمجھوتہ کریں۔ کوئی بھی ملک اپنے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔ انڈیا ہی کی مثال دیکھ لیں جب بھارتی معیشت اتنی اچھی نہیں تھی تو چین سے علاقائی تنازعات کے باوجود اس نے کبھی اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس لیے کمزور معیشت کوئی بہانہ نہیں کہ ہم اپنے اصولی موقف سے پیچھے ہٹیں اور کوئی کمپرومائز کریں۔

پاکستان کی قیادت کو فی الحال سب کچھ بھول کرانڈیا سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش کی بجائے اپنے گھر پرتوجہ دینی چاہیے۔ اپنی معیشت اور سیاسی استحکام لانے پر ساری توانائیاں مرکوز کرنی چاہیے۔نہ ہندوستان کہیں بھاگا جارہا ہے اور نہ ہی تعلقات منقطع ہونے سے ہم دنیا میں تنہا ہوجائیں گے۔ بہتر یہی ہے کہ فی الحال مودی اور انڈیا کو بھول کر ہم آگے بڑھیں۔ وقت کے ساتھ جب ہم معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم ہوجائیں تب ہندوستان سے تعلقات بارے کچھ سوچیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp