سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو عمران خان کی جمعرات کو بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظام کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مزید پڑھیں
نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے حکومتی اپیلوں پر سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔
آج کی سماعت میں پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ اس کیس میں جو دلائل وفاقی حکومت کے ہوں گے وہ انہیں اپنائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فریق اول کی جانب سے کون وکیل ہے، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل ایڈووکیٹ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ مرکزی اپیل میں خواجہ حارث فریق اول کے وکیل تھے۔
’عمران خان کو پیشی سے کیسے روک سکتے ہیں‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے میں درخواست گزار عمران خان ذاتی حیثیت میں پیش ہونا چاہتے ہیں تو ان کو یہاں پیش کیا جانا چاہیئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ عمران خان اس مقدمے میں ایک فریق ہیں، ہم ان کو پیش ہونے کے حق سے کیسے روک سکتے ہیں، یہ نیب کا معاملہ ہے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ان کا حق ہے۔
’جو وکیل نہیں، وہ ہماری کیسے معاونت کرے گا؟’
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ یہ آئین سے متعلق معاملہ ہے، کسی کے ذاتی حقوق کا معاملہ نہیں، ایک بندہ جو وکیل بھی نہیں وہ ہماری کیسے معاونت کرسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارا آرڈر تھا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے دلائل دے سکتے ہیں۔ بعد ازاں چیف جسٹس نے معاملے پر مشاورت کے لیے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کردی۔
’عجیب بات ہے، جو ریسپانڈنٹ ہیں، ان کی یہاں نمائندگی نہیں‘
وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت نے ہدایت دی کہ عمران خان کے ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے سے متعلق انتظامات کیے جائیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ بڑی عجیب صورتحال ہے کہ عمران خان جو اس مقدمے میں درخواست گزار تھے اور اب اپیل میں ریسپانڈنٹ ہیں ان کی یہاں پر نمائندگی نہیں۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کو پرسوں (جمعرات کو) عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کرنے کی ہداہت جاری کی جس پر اٹارنی جنرل کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کر دی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے تجویز دی کہ پہلے وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دے لیں، اس سے ریسپانڈنٹ کو بھی پتہ چل جائے گا کہ کیا وجوہات بیان کی گئی ہیں۔
عمران خان کا جیل سے بھجوایا گیا خط
سماعت کے شروع میں عمران خان کا خط عدالت میں پیش کیا گیا کہ وہ اس مقدمے میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کی درخواست منظور کی تو وکیل مخدوم علی خان بولے کہ عدالت اپنی آسانی کے لیے بانی پی ٹی آئی سے کل تک تحریری معروضات بھی طلب کرسکتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک اپیل وفاقی حکومت اور دوسری نجی اپیل ہے، متاثرہ فرد ہی اپیل دائر کرسکتا ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ وفاق کیسے متاثرہ فریق ہے۔
’فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی‘
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ وفاقی حکومت کی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا گیا، ہم متاثرہ فریق ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے کئی مقدمات میں اصول طے کیا کہ فیڈریشن متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مرکزی کیس میں فریق ہے تو وہ متاثرہ ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ پارلیمنٹ میں نیب ترامیم کی مخالفت کس نے کی۔
’ہم ہمیشہ بینظیر بھٹو کیس نظرانداز کردیتے ہیں‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں لارجر بینچ بننا چاہیے کیونکہ ہائیکورٹس میں نیب قانون کے خلاف آئین ہونے سے متعلق درخواستیں زیرالتوا ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے میں ہم ایک مقدمے کو ہمیشہ نظرانداز کرتے ہیں اور وہ ہے بینظیر بھٹو کیس، جس کی رو سے وفاقی حکومت کی اپیل ناقابل سماعت ہے، عدالت متاثرہ فریق کی تشریح کرچکی ہے کہ حکومت متاثرہ فریق نہیں ہوسکتی۔
’کیا وفاق کو اپنے بنائے قانون کے دفاع کا حق نہیں؟‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جس کے خلاف بھی فیصلہ ہو اسے اپیل کا حق ہوتا ہے۔ تاہم جسٹس اطہر من اللہ نے یاد دلایا کہ کسٹمز ایکٹ کیس میں عدالت قرار دے چکی ہے کہ کوئی محکمہ متاثرہ فریق نہیں ہوسکتا۔
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ کسٹمز کے کیس میں اپیل ایک افسر نے دائر کی تھی، کیا وفاق کو کوئی حق نہیں کہ اپنے بنائے ہوئے قانون کا دفاع کرسکے، نیب ترامیم سے بانی پی ٹی آئی کو کوئی ذاتی نقصان نہیں ہوا تھا۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے کہا کہ مناسب ہوگا آپ اپنے بنیادی نکات ہمیں لکھوا دیں، یہ نکات عدالتی حکم کے ذریعے بانی پی ٹی آئی تک پہنچ جائیں گے تاکہ وہ جواب دے سکیں کیونکہ اس وقت وہ آپ کے دلائل نہیں سن رہے۔
’یہ آئینی تشریح کا کیس تو نہیں‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس ترمیم کے درست یا غلط ہونے سے متعلق ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا تمام مقدمات میں سائلین کو ایسے ہی نمائندگی دینی چاہئے۔
وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے دوران سماعت بینچ کی تشکیل پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت قائم نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا لارجر بینچ کی تشکیل کی استدعا کس بنیاد پر کی تھی، یہ آئینی تشریح کا کیس تو نہیں تھا۔
وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ درخواستوں میں ترامیم کو آئین سے متصادم ہونے کی استدعا کی گئی تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک مسئلہ درخواستوں کے قابل سماعت ہونے کا بھی تھا، سپریم کورٹ کا 11 رکنی بینچ ماضی میں ایسی درخواستوں پر فیصلہ دے چکا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو کیس کا فیصلہ اس موجودہ بینچ پر بھی لاگو ہوگا، الیکشن کیس میں بھی یہی اعتراض کیا گیا تھا، میری نظر میں بانی پی ٹی آئی کی درخواستیں ناقابل سماعت نہیں تھیں۔
’خواجہ حارث بطور وکیل اپنے اور بانی پی ٹی آئی کے دلائل دیں‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ کیا ہم خواجہ حارث کو پیش ہونے کا کہہ سکتے ہیں، کیا یہ ان کا آپشن ہو گا یا ہم پیش ہونے کا کہہ سکتے ہیں۔
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ خواجہ حارث کو عدالتی معاون بھی مقرر کیا جاسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی معاون نیوٹرل ہوتا ہے، خواجہ حارث اس کیس میں فریق رہ چکے، ہم خواجہ حارث کو وکیل مقرر کیوں نہ کردیں، بطوروکیل وہ بانی پی ٹی آئی کے دلائل کے ساتھ اپنے دلائل بھی دے دیں، ہم خواجہ حارث کے لیے فیس بھی مقرر کرسکتے ہیں۔
’ہوسکتا ہے کہ عمران خان پورے نیب قانون کو ختم کرنے کی استدعا کریں‘
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی ایسا ڈیٹا ہونا چاہیئے جس سے پتہ چلے کہ نیب کی وجہ سے قومی خزانے اور لوگوں کی آزادی کو کیا نقصان پہنچا، برگیڈیئر اسد منیر کا خودکشی کا نوٹ ہی کافی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرکے کہا، ’مخدوم صاحب یہ بھی تو ممکن ہے کہ ریسپانڈنٹ یعنی عمران خان پورے نیب قانون کو ہی ختم کرنے کی استدعا کریں کیونکہ وہ اس وقت اس قانون کا وکٹم ہے۔‘
چیف جسٹس بولے، جب وہ درخواست آئے گی تو دیکھ لیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم ایک ایسے مقدمے میں وقت کیوں ضائع کریں جس میں درخواست گزار کے حق سماعت سے ہم مطمئن نہیں، پھر حسٹس منصور علی شاہ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ وہ بھی تو پارلیمنٹ کا حصہ رہے ہیں اور وہاں اس معاملے کو اٹھا سکتے تھے۔
’نیب نے اختیارات کا بے دریغ استعمال کیا‘
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ نیب نے اپنے اختیارات کا بے دریغ غلط استعمال کیا تھا، حتیٰ کہ اس وقت کی حکومت کو بھی احساس ہوا، اس حکومت کے دور میں بھی بیوروکریسی کو تحفظ دینے کے لیے ترامیم لائی گئیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ مرکزی درخواست گزار نے خود جو کہا اس کے الفاظ دیکھیں، پی ٹی آئی دور میں ترامیم 2 صدارتی آرڈیننسز کے ذریعے کی گئیں، بعد میں اتحادی حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کی گئی ترامیم برقرار رکھیں۔
مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ 2021 میں پی ٹی آئی دور میں کی گئی ترامیم کو خلاف آئین قرار دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ ریمارک ایبل دلیل ہوسکتی ہے۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا پی ٹی آئی نے جو ترامیم کیں ان کا اطلاق 1985 سے کیا گیا۔
’بانی پی ٹی آئی نے نیب ترامیم آرڈیننس کو سپورٹ کیا‘
اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے جب آرڈیننس آئے اس وقت کی حکومت اور بانی پی ٹی آئی نے ان ترامیم کو سپورٹ کیا، اس وقت کہا گیا کہ نیب کی وجہ سے بنیادی حقوق اور معیشت متاثر ہورہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر وفاقی حکومت کے وکیل بولے کہ آپ کی یادداشت بہت شاندار ہے، پی ٹی آئی حکومت کے وزیر قانون اور وزیر خزانہ نیب کے خلاف بیانات دیتے رہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ نئے قانون میں نیب تفتیش کے لیے 50 کروڑ روپے کی حد مقرر کی گئی لیکن اگر دوران تفتیش پتہ چلتا ہے کہ رقم یا مالیت کم ہے تو پھر کیا ہوگا۔
وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جب بلوچستان ہائیکورٹ نے نیب کی سرزنش کی کہ اس کو بڑے مقدمات کو دیکھنا چاہیے نہ کہ چھوٹے چھوٹے مقدمات کو تو نیب نے کہا کہ بلوچستان میں بڑی کرپشن کا کوئی مقدمہ ہے ہی نہیں تو ہمیں کچھ تو کرنا ہے۔
’اس قانون کو ختم ہوجانا چاہیے تھا‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر طرح کی کرپشن کی تحقیقات کے لیے ایک ادارہ کیوں نہیں بن سکتا۔ وکیل مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاستدانوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لیے الگ اور بیوروکریٹس کے لیے الگ فورم ہونا چاہیے۔جسٹس اطہر من اللہ بولے، ’اور کچھ لوگوں کو قانون سے بالاتر رہنا چاہیئے‘۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے برائے مہربانی اب اینیمل فارم کا حوالہ نہ دے دیں، ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مارشل لا لگتا ہے تو فوراً نیب قانون بن جاتا ہے اور جب جمہوری حکومت اس پر کچھ کرنا چاہتی ہے تو قانون سازی کا عمل رک جاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون کے ذریعے بنیادی حقوق کی بے شمار خلاف ورزیاں ہوئی ہیں، اس قانون کو تو ختم ہو جانا چاہیئے تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک بندے کو 2-3 سال جیل میں رکھا گیا، بعد میں وہ بے گناہ ثابت ہوگیا تو کیا وہ نیب پہ مقدمہ کرسکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ان ریمارکس کے جواب میں کہا، ’وہ تو کہتا ہے کہ چلو جان چھوٹی، اب اس ادارے کے پیچھے کیا پڑنا۔‘
’نیب نے کتنے سیستدانوں کو جیل میں بند کیا اور کتنے بے گناہ ثابت ہوئے؟‘
چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ نیب بتائے کہ آج تک کتنے پیسے ریکور کیے اور وہ پیسے کہاں جاتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے بھی استفسار کیا کہ یہ بھی بتائیے کہ پچھلے 10 سال میں کتنے سیاستدانوں کو جیل میں بند کیا اور کتنے بے گناہ ثابت ہوئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب میں ہائیکورٹ میں تھا تو نیب کیسز میں ضمانت کی مخالفت کرتا تھا، وہی نیب بعد میں کہتا تھا کہ اس کیس میں کوئی ثبوت نہیں ملا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس کیس کو جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل بولے ہمارے سامنے ایک کیس آیا جس میں ایک شخص کو 3 سال تک جیل میں رکھا گیا بعد میں کہا کچھ نہیں ملا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کے ساتھ ماضی میں بہت ظلم ہوا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ ظلم آج بھی ہو رہا ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ عمران خان آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوں گے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ ویڈیو لنک میں دوران سماعت کوئی خرابی نہ آئے۔ بعد ازاں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت 16 مئی تک ملتوی کردی۔
آج کی سماعت کا حکمنامہ
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا جس میں اٹارنی جنرل کو ہدایت کی گئی کہ پرسوں (جمعرات) تک عمران خان کی آن لائن پیشی سے متعلق انتظامات کیے جائیں۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ انٹرا کورٹ اپیل میں ریسپانڈنٹ عمران خان کو عدالتی حکمنامہ پہنچایا گیا، وفاقی اور پنجاب حکومت عمران کی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کو یقینی بنائیں۔
عدالت نے خیبرپختونخوا حکومت کے علاوہ تمام صوبائی حکومتوں کے ایڈوکیٹ جنرلز اور عدالتی معاونت کے لیے خواجہ حارث کو بھی نوٹس جاری کردیے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ خواجہ حارث کو نوٹس جاری کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان عدالت میں اپنی بات نہیں کر پائیں گے، خواجہ حارث صرف قانونی نقاط پر معاونت کریں گے، خواجہ حارث فیس لینا چاہیں تو عدالت مناسب احکامات جاری کرے گی۔
’کیس کو جلد نمٹانے کی کوشش کریں گے‘
حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے علاوہ تمام صوبوں نے حکومتی اپیل کی حمایت کی، نیب کی جانب سے بھی اپیلوں کی حمایت کی گئی۔ عدالت نے مخدوم علی خان کے ابتدائی دلائل کو بھی حکمنامے کا حصہ بنا دیا۔
چیف جسٹس نے حکمنامے میں کہا کہ کوشش کریں گے کیس کو جلد نمٹایا جائے، اپیل کندگان کیمطابق بانی پی ٹی آئی نیک نیتی سے عدالت نہیں آئے، اپیل کنندہ کے مطابق کوئی ترمیم بانی پی ٹی آئی یا عوام کے خلاف نہیں تھی۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ اپیل کنندہ کے مطابق نیب ترامیم کا کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا، سپریم کورٹ کو ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔