نوے کی دہائی میں آئی ایس آئی نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں اسلامی جمہوری اتحاد کے امیدواروں میں 14کروڑ روپے تقسیم کیے۔اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی نے سپریم کورٹ میں اپنے اس جرم کا اعتراف کیا مگر ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکی ۔کیونکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی اور جنرل (ر)اسلم بیگ مرزا سمیع اللہ اور کلیم اللہ کی طرح گیند ایک دوسر ے کی طرف اچھالتے رہے۔
اب لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید اور جنرل (ر)قمرجاوید باجوہ نے بھی یہی پالیسی اختیار کررکھی ہے۔صحت جرم سے انکار نہیں کیا جارہا البتہ ـ‘‘پراجیکٹ عمران’’کا گرم آلو ایک دوسرے کی طرف اچھالنے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
سابق آرمی چیف جنرل(ر)قمر جاوید باجوہ نے حالیہ انٹرویو میں جو باتیں کہی ہیں اگر ان پر من و عن یقین کرلیا جائے تو گویا وہ جی ایچ کیو کے کسی کونے میں بیٹھ کر چپ چاپ دہی کھاتے رہے اور فرزند لطیفال نہایت تندہی اور فرض شناسی سے نیا پاکستان بناتے رہے۔ اس سے پہلے جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ عمران خان کو چیف جسٹس ثاقب نثار سے ’’صادق و امین ‘‘کا سرٹیفکیٹ جاری کروانے اور توازن قائم رکھنے کے لیئے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دلوانے کا سہرہ جنرل (ر)فیض حمید کو جاتا ہے۔مگر اب تو یوں لگتا ہے کہ کپتان نے ایڑیاں رگڑیں تو ‘‘آبپارہ ’’سے فیض کا سرچشمہ پھوٹ پڑا۔اور پھر جو اچھا برا ہوا ،نئے پاکستان کے معماروں ،جناب فیض حمید اور جناب عمران خان نے مل کر کیا۔
مثال کے طور پر جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو عمران خان نے گرفتار کروایا۔ابصار عالم پر حملہ کروانے میں جنرل (ر)قمر باجوہ کا کوئی کردار نہیں ۔وہ کہتے ہیں ‘‘میں نے کبھی کسی بے گناہ کو مارنے کا حکم نہیں دیا’’۔ حالانکہ وہ اپنی بات کو مزید موثر بنانے کے لیے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ میں نے تو کبھی مکھی نہیں ماری ،کسی انسان کو قتل کرنے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہوں۔انہیں تو اسد طور پر حملے کی بھی کوئی خبر نہ تھی ۔ابصار عالم کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ممکن ہے آئی ایس آئی انٹرل ونگ کے سربراہ یعنی ڈی جی سی میجر جنرل عرفان ملک کو غصہ آگیا ہو اور انہوں نے یہ کام کیا ہو۔
اسی طرح کراچی میں مریم نواز ہوٹل کے جس کمرے میں قیام پذیر تھیں ،اس کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر)صفدر کو گرفتار کرنے کا فیصلہ وہاں آئی ایس آئی کے اسٹیشن چیف بریگیڈیئر حبیب نے کیا۔انہیں تو بس اتنا پتہ چلا یا پھر شاید ان کی دلچسپی اسی بات میں تھی کہ کیپٹن (ر)صفدر اور مریم نواز ایک کمرے میں نہیں بلکہ الگ الگ کمروں میں سورہے تھے ۔اعظم سواتی اور شہباز گل کو ننگا کرنے کے الزام کو بھی جنرل (ر)باجوہ غلط قرار دیتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں ،میں خود 62سال کا ہوں، اس عمر میں 70سال کے بزرگ اعظم سواتی کو کیسے برہنہ کرسکتا ہوں۔
جنر ل(ر) قمر جاوید باجوہ بہت بردبار قسم کے انسان ہیں ۔انہیں اعظم سواتی اورایمان مزاری ایڈوکیٹ نے کیا کچھ نہ کہا، مگر ماتھے پر شکن تک نہ آئی ۔وہ کہتے ہیں ،انہوں نے برا تو نہیں مانا مگر نوجوان فوجی افسروں نے غصہ کیااور کہا، ہم اس کو فکس کریں گے۔جس پر جنرل قمر جاوید باجوہ کے مطابق انہوں نے منع کردیا اور کہا کہ بس قانونی طور پر نمٹیں ۔اس کے بعد جی ایچ کیو نے باقاعدہ تحریری طور پر درخواست دی مگر چونکہ جسٹس اطہر امن اللہ کی بیٹی اور ایمان مزاری ایڈوکیٹ آپس میں دوست ہیں اس لیے جسٹس اطہر من اللہ نے انہیں ضمانت دیدی ۔اس کے بعد جنرل صاحب نے جان بوجھ کر اس کیس کی پیروی نہیں کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نصرت جاوید ،مرتضیٰ سولنگی اور طلعت حسین کو نوکری سے نکلوانے کی بھی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ جنرل فیض حمید نے طلعت حسین کو نوکری سے نکلوایا تھا ۔حقیقت یہ ہے کہ جب ملازمت سے فارغ ہوجانے کے بعد طلعت حسین جنرل قمر جاوید باجوہ کے کزن انجم وڑائچ کو لے کران کے پاس آئے تو انہوں نے مدد بھی کی۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورِ حکومت میں ان کے استاد عرفان صدیقی کو ہتھکڑی لگاکر گرفتار کیا گیا ۔یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے وزیراعظم نوازشریف سے سفارش کرکے انہیں آرمی چیف تعینات کروایا ،ممکن ہے جنرل قمر جاوید باجوہ ان کی گرفتاری کی ذمہ داری بھی جنرل (ر)فیض حمید پر ڈال دیں۔اسی طرح محمد بلال غوری(بندہ ناچیز)کا روزنامہ جنگ میں کالم بند کروایا گیا ،ممکن ہے یہ سوال پوچھے جانے پر بھی وہ کہہ دیں کہ یہ آئی ایس پی آر کے تگڑے ڈائریکٹر بریگیڈیئر شفیق ملک کی کارستانی تھی ،انہوں نے یہ احکامات صادر نہیں کیے۔
جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کی باتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کردار محض مشاورت یا پھر ڈانٹ ڈپٹ تک محدود تھا۔مثلاًمطیع اللہ جان کو آئی ایس آئی نے نہایت بھونڈے طریقے سے اُٹھایا جس پر انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمید کوڈانٹا۔ جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ تو آئی ایس آئی کے ڈی جی سی کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری لینے کو بھی تیار نہیں ۔ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ نے میجر جنرل عرفان ملک کو اس لیے ہٹادیا کہ انہوں نے مریم نواز کو‘‘سمیش’’ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ تو انہو ں نے کہا ،میجر جنرل عرفان ملک کو جنرل فیض حمید نے ہٹایا کیونکہ وہ ڈی جی آئی ایس آئی کے ساتھ ساتھ ڈی جی سی کا کام بھی خود کرنا چاہتے تھے ۔
جنرل (ر)باجوہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ شیو کرتے ہوئے صدیق جان کا وی لاگ سنا کرتے تھے۔ ویسے انہیں آج کل شیو کرتے ہوئے اس طرح کے وی لاگ سننے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ مشتعل ہونے کے سبب کہیں زخم نہ آجائے۔
مریم نواز کہتی ہیں ،جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی کی جائے۔عمران خان مطالبہ کرتے ہیں کہ جنرل قمر باجوہ کا کورٹ مارشل کیا جائے۔یہ دونوں حضرات سمیع اللہ او رکلیم اللہ بنے ہوئے ہیں تو کیوں نہ دو پھندے تیار کیے جائیں اور دونوں کا کورٹ مارشل کیا جائے؟