نیب ترامیم میں وفاقی حکومت کی جانب سے دائر اپیل پر سپریم کورٹ میں سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی گئی، دوران سماعت چیف جسٹس قاضٰ فائز عیسیٰ اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے زیر لب مسکراتے ہوئے میں عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمام نکات نوٹ کر لیں آپ سے جواب لیں گے، جس پر بانی پی ٹی آئی بھی منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا دیے۔ عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے، عمران خان نے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو آئندہ سماعت پر بھی ویڈیو لنک پرپیش کرنے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنائے گئے 5 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے کیس کی سماعت کی۔ اس سے قبل بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں، عدالت نے نیب ترامیم کے خلاف تحریری فیصلہ 15 ستمبر 2023 کو جاری کیا تھا۔
مزید پڑھیں
سابق وزیراعظم عمران خان بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ کسی مجرم کو اڈیالہ جیل سے براہ راست سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا، اس سے قبل ہائیکورٹس اور ضلعی عدالتوں میں لوگ ویڈیو لنکس کے ذریعے پیش ہوتے رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں پیشی کی پہلی مثال ہے۔
سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے عدالت میں موجود خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی میں معاونت کروں گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اٹارنی جنرل اور خواجہ حارث کو روسٹرم پر بلالیا، اور نیب ترامیم پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی سماعت کا حکمنامہ بھی طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ آپ اونچی آواز میں بولیں تاکہ بانی پی ٹی آئی بھی آپ کو سن سکیں، جس پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔ اس دوران پی ٹی آئی قیادت اور وکلا کی بڑی تعداد کمرہ عدالت میں موجود رہی۔
مرکزی کیس پر اتنا عرصہ کیوں لگا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب ترامیم کے خلاف ہائیکورٹ میں درخواست اب بھی زیر سماعت ہے، مخدوم علی نے جواب دیا کہ کل میں نے چیک کیا ابھی تک زیر التوا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں وہ درخواست سماعت کے لیے منظور ہو چکی تھی۔ مخدوم علی بولے کہ جی وہ سماعت کے لیے منظور ہو چکی ہے۔ اس درخواست پر اب تک 53 سماعتیں ہو چکی ہیں جن میں 19 پر میں نے دلائل دیے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایک جنرل ایک مہینے میں آرڈیننس نافذ کر دیتا ہے جبکہ ہمارے وکلا چند ترامیم کے لیے 53 سماعتیں کروا چکے ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف درخواست کب داٸر ہوئی؟ مخدوم علی بولے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست 4جولائی 2022کو دائر ہوئی، سپریم کورٹ والی درخواست کو نمبر 6 جولائی 2022 کو لگا سماعت 19جولائی کو ہوئی، چیف جسٹس دوبارہ بولے کہ مرکزی کیس پر اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا تھا، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ 2022 کا پورا سال درخواست گزار کے وکیل نے دلائل میں لیے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ نیب کا پورا آرڈیننس بنانے میں کتنا عرصہ لگا تھا، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مشرف نے 12 اکتوبر کو اقتدار سنبھالا اور دسمبر میں آرڈیننس آچکا تھا، مشرف نے دوماہ سے کم عرصے میں پورا آرڈیننس بنا دیا تھا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ چند ترمیم سے متعلق کیس سننے میں اتنا زیادہ عرصہ کیوں لگا، مخدوم علی خان آپ کیس میں موجود تھے اتنا عرصہ کیوں لگا دیا۔ جس پر وہ بولے کہ کیس قابل سماعت ہونے کی بحث میں ہی کافی وقت لگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابل سماعت ہوا؟ کیا مرکزی کیس کے فیصلے میں عدالت نے اس سوال کا جواب دیا تھا؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالت نے فیصلے میں اس معاملے کا ذکر کیا تھا، مخدوم علی خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ پیراگراف عدالت میں پڑھ دیا۔
ہم نے 12 دن میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا تھا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان بینچ میں موجود تھے، ہم نے 12 دن میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنایا تھا، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ 2023 میں الیکشن کیس ایسی ہی وجوہات پر ہم 2 ججز نے ناقابل سماعت کردیا تھا، ہم نے کہا تھا جو کیس ہاٸیکورٹ میں زیر التوا ہے اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اگر تب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عمل ہوتا تو الیکشن بروقت ہو جاتے، لاہور ہائیکورٹ بار نے جو الیکشن کا فیصلہ دیا تھا اسکے خلاف انٹرا کورٹ حکم جاری نہیں ہوا تھا، الیکشن کیس میں تمام بنچ کی رائے تھی 90روز میں الیکشن ہوں، عدالتی فیصلے کے باوجود عملدرآمد نہیں ہوا۔
وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ میں پہلے 9 رکنی بینچ تھا، 2 ججوں نے معذرت کی تو پھر 7 رکنی بینچ باقی رہ گیا، 2 ججوں نے رائے کا اظہار کردیا اور کہا کیس قابل سماعت نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیس کے پہلے دن کوئی جج رائے کا اظہار کرے تو وہ بینچ سے الگ نہیں ہوجاتا۔ اس کیس میں کوئی جج اپنی رائے کا اظہار کردے تب بھی وہ بینچ کا حصہ رہے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ فیصلے کی ایک اور چیز بھی اہم ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز نے کہا تھا کہ انتخابات 90 دن میں کرانے لازم ہیں، اس کے باوجود سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ چیف جسٹس بولے کہ الیکشن کے معاملے پر سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا اسکا آرڈر آف کورٹ کہاں ہے؟ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ آرڈر اسی نکتے پر اختلاف کی وجہ سے جاری نہیں ہوا۔
چیف جسٹس نے جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے مکالمہ کیا کہ آپ جب میرے ساتھ بینچ میں بیٹھے ہم نے تو 12 دن میں الیکشن کروا دیے، آپ جس بینچ کی بات کررہے ہیں اس میں خوش قسمتی یا بدقسمتی سے میں نہیں تھا۔
قانون ہم توڑیں یا فوج، بات ایک ہی ہے: چیف جسٹس کی اپنے ادارے پر تنقید
دوران سماعت چیف جسٹس نے اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے مختلف قوانین معطل کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بطور جج ہم حلف اٹھاتے ہیں کہ آئین اور قانون کی حفاظت کریں گے، یہ قانون سازی بل کو معطل کر دیتے ہیں پھر حتمی فیصلہ بھی نہیں دیتے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آیا بل کی سطح پر قانون سازی کو معطل کرنا پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے مترادف نہیں، اس پر چیف جسٹس نے طنزیہ انداز میں کہا کہ ایسا ہے تو ہم پارلیمنٹ کو معطل کر دیتے ہیں۔ قانون ہم توڑین یا فوج بات تو ایک ہی ہے۔
’ہم کب تک اپنے آپ کو بے وقوف بناتے رہیں گے، کب اس ملک کو آگے بڑھنے دیا جائے گا، ایک قانون کو معطل کرکے، سائیڈ پہ رکھ دیتے ہیں، پھر دوسرے مقدمات کو ترجیح دیتے ہیں، یا تو روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کر دیں‘، چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان سے سوال کیا، کیا یہ انصاف اور ایمانداری ہے؟
قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی مقدمہ عدالت آیا تو اسے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے، قانون کو معطل کرنا بھی نظام کے ساتھ ساز باز کرنا ہے، ہم میرٹ پر چلتے تو بہتر ہوتا، قانون کو معطل کرنے کے بجائے روزانہ کی بنیاد پر سن کر فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2 کے تحت اپیل متاثرہ شخص کرسکتا ہے، متاثرہ فرد کیسے ہوتی ہے۔
چیف جسٹس اور عمران خان کا مکالمہ
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کسٹم ایکٹ کالعدم قرار دے تو کیا حکومت اپیل نہیں کرسکتی، وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ بالکل حکومت اپیل کرسکتی ہے۔ 2022 کے فالو آپ پہ 2023 کی ترامیم بھی آئیں تھیں، عدالت نے فیصلے میں 2022 کی ترامیم ہی کالعدم قرار دیں۔ چیف جسٹس بولے کہ تو آپ ٹیکنیکل اعتراض اٹھا رہے ہیں، حکومتی وکیل نے جواب دیا کہ یہ ٹیکنیکل اعتراض بھی موجود ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان سوالات پر بانی پی ٹی آئی عمران خان سے جواب لیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس کے ساتھ زیر لب مسکراتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی یہ نکات نوٹ کر لیں۔ بانی پی ٹی آئی چیف جسٹس کی زیر لب مسکراہٹ دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرا دیے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے قانون بدل سکتے تھے مگر آرڈیننس لائے، نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمانی تنازعہ تھا جسے سپریم کورٹ لایا گیا، یہ ملی بھگت سے معاملہ سپریم کورٹ لایا گیا۔ عدالت نے وکیل مخدوم علی خان کو ایسے الفاظ استعمال کرنے سے روک دیا۔
آرڈینس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، چیف جسٹس
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کسی بل پر کوئی پارٹی رکن اپنی پارٹی فیصلے کیخلاف ووٹ دے سکتا ہے، چیف جسٹس بولے کہ اس معاملے پر نظرثانی درخواست موجود ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مخدوم صاحب کرپشن کے خلاف مضبوط پارلیمان، آزاد عدلیہ اور بے خوف لیڈر کا ہونا ضروری ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں موجود ہیں، یہاں تو اسے ختم کرنے کے لیے کوئی اور آرڈیننس لایا جارہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈینس لانے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیں، آرڈینس کے ذریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھونپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈینس کے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہییں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بانی پی ٹی آئی درخواست لانے کے مجاز نہیں تھے۔ آپ اپنے اس نقطے پر بات مکمل کریں، اس کے بعد ہم آج کی کارروائی ختم کریں گے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی سیاستدان ہیں انہیں سیاسی تنازعات پارلیمان میں رکھنا چاہیے تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ہم کسی سیاستدان کی درخواست نہ سنا کریں۔ مخدوم علی بولے کہ جی سر عدالت کو صرف عام شہریوں کی درخواست سننی چاہیے۔ پارلیمنٹ میں قانون سازی پر ووٹنگ میں ہار جانے والی پارٹی عدالت آجاتی ہے۔ جسٹس جمال بولے کہ ہم وہ بل آئین کے مطابق ہونے یا نہ ہونے پر تو فیصلہ کرہی سکتے ہیں، مخدوم علی نے کہا کہ طاہر القادری کی درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کردی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر قہقہے
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگلے ہفتے بینچ کی دستیابی پر سماعت ممکن ہوسکے گی، وکیل خواجہ حارث بولے کہ جی میں یہیں ہوں کہیں بھی نہیں جا رہا، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی جیل سے کہیں نہیں جارہے، جس پر کمرہ عدالت میں بیٹھے تمام لوگوں نے قہقہے لگانا شروع کردیے۔ پچھلے بینچوں سے علی محمد خان کی آواز آئی کہ عمران خان جیل سے سیدھا وزیر اعظم ہاؤس جائیں گے۔
یہ واضح کردوں کہ کوئی بھی جج نہ ڈرے گا نہ سہمے گا، جسٹس اطہر من اللہ
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فیصل واوڈا کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا کی پریس کانفرنس توہین آمیز تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے پگڑیوں کا فٹبال بنا تو دیا ہے، یہ واضح کردوں کہ کوئی بھی جج نہ ڈرے گا نہ سہمے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو توہین آمیز پریس کانفرنسز کے معاملے سے دور رہنے کا عندیہ دے دیا۔ توہین آمیز پریس کانفرنسز ہورہی ہیں، ان کو کرنے دیں جو کر رہے ہیں، وہ خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔
ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات مکمل
اس سے قبل ذرائع نے بتایا تھا کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اسد جاوید وڑائچ کی درخواست پر آئی جی جیل خانہ جات آفس لاہور کی جانب سے پی ٹی سی ایل کو باضابطہ طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے سینٹرل جیل راولپنڈی میں ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کے لیے ضروری انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
مینجر کارپوریٹ سیلز پی ٹی سی ایل کو بھیجے گئے لیٹر میں استدعا کی گئی کہ اس حوالے سے ایک ٹیکنیکل ممبر کو تعینات کیا جائے تاکہ انٹرنیٹ کی سہولت کی جانچ پڑتال کی جاسکے اور سنٹرل جیل راولپنڈی میں سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل میں فول پروف اور بلا تعطل بینڈوتھ کنیکٹیویٹی کو یقینی بنایا جاسکے۔
سپریم کورٹ عملے کے مطابق تمام انتظامات مکمل کر لیے گئے تھے، ٹی وی اسکرینزاورساؤنڈ سسٹم بھی نصب کردیے گئے ہیں، اڈیالہ جیل میں بھی انتظامات کرلیےگئے ہیں، عمران خان کو ٹیلیویژن پربراہِ راست دکھائے جانے سے متعلق سوال پر عدالتی عملے نے بتایا کہ بظاہرتواس ضمن میں کوئی چیزمانع نظرنہیں آتی۔
پی ٹی آئی کے سینئر رکن ایڈووکیٹ حامد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہتر یہ ہوتا کہ عمران خان کو ذاتی حیثیت میں عدالت بلایا جاتا۔ ’اس نوعیت کی پہلے کوئی نظیر ہے یا نہیں اب یہ غیرمتعلق ہو چکا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔‘
واضح رہے سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے دو، ایک کی اکثریت سے نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں، نیب ترامیم کےخلاف کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
سپریم کورٹ نے ختم کیے گئے تمام نیب مقدمات بحال کرتے ہوئے 10 میں سے 9 ترامیم کو کالعدم قراردیا تھا، سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی متعدد شقوں کو آئین کے برعکس قراردیا تھا۔
وفاقی حکومت نے 17 اکتوبر2023 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائرکی تھی۔ جس پر سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت میں بانی پی ٹی آئی کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک پر حاضری کاحکم دے رکھا ہے۔