جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ ملاقاتوں کی تصدیق کی ہے۔ جنرل الیکشن کے بعد جمعیت اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے اتحاد کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں جو ان پارٹیوں کے درمیان باقاعدہ اتحاد کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔
ماضی میں مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی کی طرف سے عمران خان اور تحریک انصاف پہ کڑی تنقید ہوتی رہی۔ یہ کہا جائے کہ عمران خان حکومت کے سب سے بڑے حریف اور انہیں ٹف ٹائم دینے والے مولانا فضل الرحمان تھے تو غلط نہ ہوگا۔ جے یو آئی اور مولانا ہی نے گزشتہ حکومت میں اصل اپوزیشن کا کردار ادا کیا تھا۔
بعین اسی طرح تحریک انصاف نے بھی جے یو آئی کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، بلکہ عمران خان نے بذات خود میڈیا ٹاک اور جلسوں میں مولانا فضل الرحمان کو حد درجہ نشانہ بنایا، مولانا کے دوستوں کو گرفتار کیا اور مختلف مواقعوں پہ ان کے لیے مشکلات پیدا کی گئیں۔ عمران خان نے کئی مرتبہ مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کہہ کر پکارا، یہ تضحیک تھی اور کرپٹ ہونے کا الزام بھی۔
مگر اب سینوں میں وہ تڑپ نہ رہی۔ دونوں جانب سے شدت اختلاف کم اور اتفاق زیادہ ہو رہا ہے۔ برف پگھلنے لگی اور قربت بڑھ رہی۔ بہت سوں کے نزدیک ایسا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔
ایک اور اہم پس منظر دیکھیں۔ ماضی میں مولانا فضل الرحمان اور جے یو آئی کی جانب سے عمران خان پر بارہا یہودی ایجنٹ کا الزام لگتا رہا۔ کچھ جمیعتی تو شواہد پیش کرنے کے بھی دعویدار تھے۔ اسی الزام کی کڑی میں ملکی اور علاقائی سطح پہ بہت سے مفتیوں اور مولویوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کو ووٹ دینا حرام قرار دیا تھا۔ یہ تحریری فتوے اور ویڈیو بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ کئی مرتبہ کئی جگہوں پر علماء اور تحریک انصاف کے ورکروں میں اس بیان پر لڑائیاں ہوتی رہیں، منبر و محراب کبھی مولوی تو کبھی انصافی کارکنوں کیلئے بند ہوئے۔
اب مولانا کہہ رہے کہ یہ سیاسی بیان تھا، کیا واقعی یہ سیاسی بیان تھا؟؟؟
اگر یہ سیاسی بیان تھا تو پھر ان سینکڑوں فتووں کا کیا ہوگا جو علماء اور مفتیوں نے عمران خان کے خلاف دیے تھے؟ یا وہ فتوے بھی یعنی وہ مذہب بھی سیاست کی نظر ہوگئے؟ کیا وہ مفتی اور مولوی بھی اپنا فتویٰ واپس لیں گے؟
مولانا فصل الرحمان اتنی آسانی سے اس معاملے کو نارملائیز نہیں کر سکتے۔ مولانا کو اس معاملے میں عمران خان، تحریک انصاف اور پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے اور اپنی بڑی غلطی کا اعتراف اور اس کا ازالہ کرنا چاہیے۔ نہیں تو کل کو ملکی بلکہ ضلعی سطح پہ بھی سیاسی حریف ایک دوسرے پر یہودی ایجنٹ، اسرائیلی ایجنٹ، اورانڈین ایجنٹ ہونے کے الزامات لگائیں گے۔ یہ معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک عمل ہے۔ ماضی میں اس سے ملتے جلتے واقعات پر قتل و غارت بھی ہو چکی ہے۔
آج سے پون صدی قبل مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ آج یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ کل کے حریف آج کے حلیف ہیں، مگر بدقسمتی سے یہ دوستی اور دشمنی عوام کے حق کے لیے نہیں بلکہ ذاتی مفاد کے لیے ہوتی ہے۔
مفاد اور خوف اتفاق کا سبب ہے، خاص کر وطن عزیز کی سیاست مکمل ذاتی مفاد کا نام بن کر رہ گئی ہے۔ یہاں پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو قرار دینے والے شخص کو اپنا سپیکر اسمبلی اور وزیر اعلیٰ بنایا جاتا ہے۔ چپڑاسی قرار دینے والے کو اپنا خاص الخاص وزیر داخلہ بنایا جاتا ہے۔ یہاں لاڑکانہ، سکھر اور نواب شاہ کی سڑکوں پہ گھسیٹنے کا کہہ کر اسی شخص کو صدر بنایا جاتا ہے۔ یہاں اپنی پارٹی چیئرپرسن کی ہیلی کاپٹر سے نازیبا تصاویر پھینکنے والوں کے ساتھ اتحاد اور انہیں وزیراعظم بنایا جاتا ہے۔
وطن عزیز کے الیکٹیبلز مختلف ادوار میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا حصہ بنتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ اتحاد و اختلاف ملکی مفاد سے زیادہ ذاتی مفاد کے لیے ہوتا ہے۔ سیاستدان کا پارٹی بدلنا یا مخالف نظریاتی پارٹی کے ساتھ اتحاد و اختلاف رکھنا کوئی انوکھی بات نہیں مگر یہ کسی اصول کے تحت ہو تو مانا جائے۔ یہاں اتفاق کی وجہ مفاد اور خوف ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔