پاکستان میں خواتین میں بانجھ پن کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جس کا اندازہ ملک میں پولی سسٹک اووری سنڈروم (پی سی او ایس) کی بڑھتی شرح سے لگایا جاسکتا ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں ہونے والی پہلی پی سی او ایس سمٹ میں ماہرین کی جانب سے انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 70 فیصد خواتین کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ پی سی او ایس میں مبتلا ہیں۔ جبکہ 50 فیصد تولیدی عمر کی خواتین پی سی او ایس کا شکار ہیں۔ اور یہ پی سی او ایس ان خواتین میں بانجھ پن کی شرح میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
رمشا مشرف کا تعلق اسلام آباد سے ہے، اور ان کی شادی کو تقریباً 5 برس بیت چکے ہیں، جنہوں نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ شادی سے قبل کبھی کبھی ماہواری میں تاخیر کا مسئلہ ہوجاتا تھا، اور ان کی امی انہیں یہ کہہ دیتی تھیں کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن شادی کے بعد سسرال والوں کے رویے نے مجھے ذہنی طور پر کافی زیادہ متاثر کیا، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان رہتی تھی، اور یوں میں ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔
مزید پڑھیں
انہوں نے کہاکہ کچھ عرصے بعد مجھے محسوس ہونے لگا کہ ماہواری میں تاخیر کا مسئلہ بڑھتا جارہا ہے، کبھی 2 مہینے اور کبھی 3 مہینے بھی گزر جاتے تھے، لیکن چونکہ زندگی میں اتنے مسائل تھے کہ اس وقت یہی سوچ کر اس بات کو سنجیدہ نہیں لیتی تھی کہ شاید میں اپنی خوراک کا دھیان نہیں رکھتی تو کمزوری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔
’2 برس ہونے کو آگئے لیکن میں ایک بار بھی حاملہ نہیں ہوئی، اور اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ نہ کچھ غلط ہے، وزن بڑھ رہا تھا، لیکن ارد گرد سب یہی کہتے تھے کہ شادی کے بعد وزن بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد اس بات کا علم ہوا کہ یہ وزن بڑھنا کچھ اور نہیں بلکہ پی سی او ایس کی علامت ہے، اور بد قسمتی سے اس سے قبل میں کبھی اس لفظ سے بالکل واقف نہیں تھی‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر نے انہیں یہ بتایا کہ اس بیماری کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ اور جب تک میں اس صورتحال سے نہیں نکل جاتی، اس وقت تک میں حاملہ نہیں ہوسکتی۔ کہتی ہیں کہ اب 5 سال ہوچکے ہیں۔ پی سی او ایس کی شدت نے مجھے اتنا جکڑ لیا ہے کہ اب میں نے اس بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
’لیکن جب اپنی عمر کی لڑکیوں کو ماں بنتا دیکھتی ہوں تو بہت حسرت ہوتی ہے کہ اللہ مجھ پر بھی یہ وقت لائے، اور مجھے بھی اولاد کی نعمت سے نوازے، ورنہ میں تو امید ہی ہار چکی ہوں‘۔
پی سی او ایس کو سنجیدگی سے لینا اور بروقت اس کا علاج کروانا بہت ضروری ہے، گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ
اس حوالے سے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہدہ نے بات کرتے ہوئے کہاکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں یے کہ خواتین میں بانجھ پن کی ایک بڑی وجہ پولی سسٹک اووری سینڈروم ہے۔ کیونکہ زیادہ تر خواتین اس پی سی او ایس کو سمجھ ہی نہیں پاتیں، اور ماہواری کے لیے گھریلو ٹوٹکے کرنا شروع ہوجاتی ہیں۔ ’دیہات میں اب بھی یہی رواج چلتا آرہا ہے، جبکہ پی سی او ایس کو سنجیدگی سے لینا اور بروقت اس کا علاج کروانا بہت ضروری ہے، ورنہ یہ بانجھ پن کی شکل اختیار کر لیتا ہے‘۔
’ کلینک میں جتنی بھی خواتین آتی ہیں ہر 10 میں سے 8 خواتین کے حمل میں ایک وجہ پی سی او ایس بھی ہوتا ہے، اور جب پی سی او ایس شدت اختیار کرتا ہے تو رحم پر رسولیاں بنتی ہیں جو خواتین میں بانجھ پن پیدا کرتی ہیں۔ ماہواری میں تاخیر یا ماہواری کو کنٹرول کرنے میں مشکل ہونا، حمل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پہلے ان تمام معاملات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور بعد میں پھر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘۔
پی سی او ایس کی وجوہات کیا ہیں؟
پی سی او ایس کی وجوہات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ کہتی ہیں کہ یہ بیماری جنیاتی بھی ہوسکتی ہے اور بعض اوقات اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارا طرز زندگی ہے۔ اگر کوئی خاتون کوئی ایسی دوا لے رہی ہے جس میں سٹیرائیڈ ہوں اور اس کو لیتے ہوئے کافی وقت بھی گزر جائے تو اسے بھی یہ مسئلہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس کے بارے میں سب سے بڑی اور غلط بات جو کہی جاتی ہے وہ یہ کہ ایسی خواتین ماں نہیں بن سکتیں، اس کا حاملہ نہ ہونے سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب ڈاکٹر شاہدہ نے کہاکہ اس سے نمٹنے کے لیے دواؤں سے کہیں زیادہ جسمانی سرگرمیاں، اچھی خوراک اور دماغی صحت کو برقرار رکھنا مؤثر علاج ہیں۔
کیا پی سی او ایس سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے؟
ایک مزید سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ اس بیماری کو ختم نہیں کیا جاسکتا، جبکہ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ یہ بیماری آپ کو دوبارہ بھی ہوسکتی ہے۔
ان کے مطابق اس بیماری کو ٹھیک کیا جاسکتا ہے اور ایک عام انسان کی طرح زندگی بھی گزاری جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی غذا اور جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔ سٹیرائڈ کے استعمال کو ترک کیا جائے، اسی لیے ڈاکٹر فارمی انڈے اور مرغی کے گوشت کو منع کرتے ہیں، اس کے علاوہ چکنائی سے بھرپور غذاؤں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
کیا سینٹری پیڈز بھی خواتین میں بانجھ پن کی وجہ بن رہے ہیں؟
خواتین کے بانجھ پن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا تھا کہ دنیا میں اس طرح کی ریسرچ اسٹیدیز ہوچکی ہیں، جس میں خاص طور پر غیر نامیاتی پیڈز کو خواتین میں کینسر اور بانجھ پن کی ایک وجہ قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ غیر معیاری سینیٹری پیڈز خواتین میں یو ٹی آئی انفیکشنز، کینسر اور دیگر انفیکشنز کا سبب بنتے ہیں۔ اور پاکستان میں بھی کئی خواتین ایسی ہیں جنہیں یہ انفیکشنز مارکیٹ میں پڑے کسی بھی غیر معیاری سینیٹری پیڈز کی بنا پر ہوتے ہیں۔ لیکن چونکہ انڈیا اور دیگر ممالک میں اس پر بہت ریسرچ کی جارہی ہے۔ تو وہاں اس کی آگاہی کے لیے بھی کام ہورہا ہے۔ لیکن پاکستان میں بد قسمتی سے نہ ہی کوئی ریسرچ ہے اور نہ ہی خواتین کی ماہواری کی آگاہی کے حوالے سے کوئی خاص کام ہورہا ہے۔