کم عمری کی شادی بچیوں کو کیسے متاثر کرتی ہے؟

بدھ 27 مارچ 2024
author image

ابن مریم

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اماں ابھی مجھے تھوڑا اور کھیلنے دو، میری باری آنے ہی والی ہے، مجھے دلہن نہیں بننا۔

میرے ذہن میں 14 سال کی رانی (فرضی نام) کے ان الفاظ کی گونج اس وقت ایک بار پھر تازہ ہوگئی جب ابھی چند روز پہلے گلگت سے ایک 13 سالہ بچی کے پہلے اغوا ہونے اور پھر ایک 16 سالہ لڑکے سے شادی ہونے کی خبر نظروں سے گزری۔

پھر بچی کے اپنی عمر اور اپنی مرضی سے متعلق وڈیو بیانات سامنے آئے تو ان نو عمر بچوں کی شادی نے جہاں دعا زہرا، اسد نمرہ اور ان جیسے بے شمار واقعات کو سامنے لا کھڑا کیا وہیں 16 برس قبل گومے کناری کا بھاری جوڑا پہنے رانی کا ماں باپ سے کھیلنے کی ضد اور پھر اپنا بستہ اُس گھر ساتھ نہ لے جانے پر اس کا پھوٹ پھوٹ کر رونے کی یاد نے بے چین کر دیا۔

رانی کی کہانی ہم تھوڑا آگے چل کر بتائیں گے لیکن پہلے یہ سمجھ لیں کہ ان بچیوں کی آپ بیتیوں میں فرق ہونے کے باوجود وہ کیا چیز مشترکہ ہے جو سمجھنا ضروری ہے؟

وہ چیز ہے کم عمری میں ان پر شادی کی وہ ذمہ داری جس کے لیے ان کا جسم اور ذہن ابھی مکمل تیار نہیں۔ اگرچہ ان بچیوں میں بلوغت کا فطری عمل شروع ہو بھی گیا ہو تو بھی ان کے کچے ذہن، کمزور ہڈیاں اور جسمانی نشوونما شادی اور خاندان بنانے کے عمل یعنی حمل کے لیے تیار نہیں اور چند سالوں میں بچیوں کی شادی سے متعلق وہ غلط فیصلہ جو چاہے انہوں نے اپنی ناسمجھی کے باعث خود لیا ہو یا ان کے والدین نے کیا ہو، ان بچیوں کی زندگی پر اپنے منفی اثرات مرتب کر جاتا ہے۔

ایک شادی کا ایک بنیادی مقصد ایک خاندان کی بنیاد رکھنا ہوتا ہے تاہم کم عمری کی شادی کی صورت میں لڑکی نا صرف شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات نبھانے میں دشواری کا سامنا کر سکتی ہے بلکہ دوران حمل اور زچگی کے وقت پیچیدگیاں ماں اور بچے دونوں کی زندگیوں کو خطرے سے دوچار کر دیتی ہیں۔

کم عمری میں شادی کے لڑکی کی ذہنی اور جسمانی صحت پر اثرات سے متعلق ماہرین کی آرا سے بھی آپ کو آگاہ کریں گے لیکن یہاں آپ کی بہتر انڈر اسٹینڈنگ (سمجھ) کے لیے میں پہلے رانی کا مختصر حال آپ کو سنا دوں۔

سندھ کے ضلع خیرپور کے گنجان آباد علاقے کی رہائشی رانی (فرضی نام) کی جب 14 سال میں شادی ہوئی اس وقت وہ ساتویں جماعت پاس کر چکی تھیں، جنہوں نے زندگی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے اور اپنی پہچان بنانے کے خواب دیکھ رکھے تھے۔

غربت کے ماحول میں آنکھ کھولنے والی رانی 4 بہنوں میں سب سے بڑی ہیں۔ ’جب اماں نے بتایا کہ میری شادی ہو رہی ہے تو مجھے اس وقت بالکل سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ میں بس حیران ہو کر سب دیکھ رہی تھی۔ شادی کا کچھ پتا نہیں تھا۔ نہ یہ پتا تھا کہ شوہر کیا ہوتا ہے، پیار کیا ہوتا ہے، کیونکہ میرا دماغ صرف پڑھائی اور کھیل کود کی ہی سوچتا تھا۔‘

شبانہ کی عمر اب تقریباً 30 سال ہے اور ان کے مطابق ان کے شوہر نے ایک چھوٹی بچی سے بیاہ کی خواہش میں ان سے شادی کی تھی جو ان کا ہر کہنا مانے اور گھر کے کام کاج کو بھی سنبھالے اور تشدد سہہ کر اف تک نہ کرے۔

’شادی کے بعد یکے بعد دیگرے میرے 5 بچے ہوئے اور 3 حمل ضائع ہوئے۔ پہلی بار ماں بنتے وقت کم عمری، بے آرامی، خون کی کمی اور حمل کی پیچیدگیوں کے باعث بچہ مرا ہوا پیدا ہوا جس کا قصوروار مجھے ہی ٹھہرایا گیا۔‘

کم عمری، نا سمجھی اور اپنے جنسی حقوق سے مکمل ناواقفیت کے باعث رانی اپنے شوہر کو کبھی نہ اپنی تکالیف بتا سکیں نہ کبھی ان کو انکار کر سکیں۔

پہلا بچہ ضائع ہونے کے 2 ماہ بعد پھر حمل سے ہو گئی۔ یوں سلسلہ چل پڑا اور اپنی عمر سے بڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے رانی سے ان کا بچپن ہی نہیں جوانی بھی وقت سے پہلے چھین لی گئی۔

اب بغیر وقفے کے بچوں کی پیدائش نے رانی کو پیٹ کے نچلے حصے کے پٹھوں (پیلوک فلور کے مسلز) کی شدید کمزوری میں مبتلا کر دیا ہے۔ 5 بچوں کے بعد تولیدی صحت کی خرابی، مسلسل تھکاوٹ اور کمزوری نے شوہر کو دوسری لڑکی سے شادی کرنے کا جواز بھی فراہم کر دیا۔

پیلوک فلور مسلز کی کمزوری کیا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

فزیو تھراپسٹ ڈاکٹر صبا کرامت نے بتایا کہ پیلوک فلور مسلز دراصل وہ اندرونی پٹھے ہیں جو ہمارے پیٹ کے نچلے حصے میں موجود اعضا جن میں ہمارا مثانہ، آنتیں، مقعد جبکہ خواتین میں بچہ دانی کا نظام شامل ہیں، سہارا دینے کے لیے پورا ایک فلور بناتے ہیں ۔‘

’ پیلوک فلور مسلز کی کمزوری میں متاثرہ خاتون کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک بوجھ یا وزن ناف کے نیچے دباؤ ڈال رہا ہے۔ تو دراصل ان پٹھوں کی کمزوری سے بچہ دانی نیچے کی جانب آ جاتی ہےاور اس سے روز مرہ زندگی شدید متاثر ہونے لگتی ہے۔’

ماہر امراض نسواں ڈاکٹر شازیہ فخر کا کہنا ہے پیلوک فلور مسلز یا پیٹ کا نیچے والا حصہ خواتین کے لیے اس لیے زیادہ اہم ہے کہ بچوں کی پیدائش میں کم وقفہ، بڑھتی عمر کے ساتھ اور بعض اوقات کام کی نوعیت کے باعث یہ پٹھے کمزور یا ڈھیلے ہو جاتے ہیں۔

’ دوران حمل بچے کے وزن سے پٹھوں پر دباؤ، زچگی کے وقت درد اور نارمل ڈیلیوری میں پٹھوں کا بہت زیادہ کھنچنا اور پھر ہر بچے کی پیدائش کے ساتھ یہ پٹھے مزید ڈھیلے پڑتے جاتے ہیں، اس سے پیشاب پر قابو پانا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔‘

رانی کی کھیلنے کودنے کی عمر میں شادی اور پھر مناسب وقفے کے بغیر بچوں کی پیدائش نے اسے خون کی کمی، پٹھوں کی کمزوری اور تولیدی صحت سے متعلق بے شمار مسائل کا شکار بنا دیا ہے جس کی بڑی وجہ کم عمری کی شادی ہے۔

2 سالوں میں ملک بھر میں کم عمری کی شادیوں کے 70 کیسز رپورٹ: ایچ آر سی پی

ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں کم عمر بچیوں کی شادی سے متعلق قوانین موجود نہیں ہیں بلکہ قانون بالکل واضح ہے کہ کم عمری کی شادیاں جرم ہیں اور صوبوں میں ان کی مختلف حدود مقرر ہیں۔ قوانین میں کم عمر بچوں کو بہلانا پھسلانا بھی جرم ہے اور اس کی سزا مقرر ہے۔ لیکن اس کے باوجود کبھی بچوں کی جبری بے جوڑ شادی تو کبھی ماں باپ یا گھر والوں کی رضا مندی کے بغیر گھر سے بھاگ کر اور غلط بیانی کر کے شادی کے بندھن میں بندھ جانے کی خبروں میں اضافہ ہی سامنے آتا گیا۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ 2 سالوں کے دوران ملک بھر میں کم عمری کی شادیوں کے کل 70 کیسز رپورٹ ہوئے۔ جن میں بلوچستان میں 2، خیبرپختونخوا 4، پنجاب میں 18 جبکہ سندھ میں 46 کیسز رپورٹ ہوئے۔

واضح رہے کہ یہ وہ کیسز ہیں جو میڈیا پر سامنے آ سکے جبکہ ایسے کیسز کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

کم عمری میں شادی کی وجہ سے بچیاں بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، پروفیسر نابیہ

ماہر امراض نسواں پروفیسر نابیہ طارق کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جن بچیوں کی بہت کم عمری میں شادیاں کردی جاتی ہیں وہ بنیادی تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے اندر شوہر کے ساتھ جنسی تعلقات کو استوار کرنے کی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی نہ ان کو اپنے جنسی حقوق کی آگاہی ہوتی ہے، وہ شادی کی صورت میں جنسی طور پر تو فعال ہو جاتی ہیں لیکن ان کی ہڈیاں اتنی مضبوط یا مکمل نہیں ہوتیں کہ وہ چھوٹی عمر میں حمل اور زچگی سے بآسانی گزر سکیں۔

ڈاکٹر نابیہ کے مطابق کم عمری کی شادی میں بچیاں بہت جلدی حاملہ ہو جاتی ہیں اور پھرصحت کے ان مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس کا سامنا چھوٹی عمر میں ماں بننے والی بچیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس میں غیر محفوظ ابارشن، بچے کا مردہ حالت میں پیدا ہونا، دوران زچگی بہت زیادہ بلیڈنگ کے باعث جان کی بازی ہار جانا بھی شامل ہے۔ فیسٹولا جیسا سنگین مسئلہ کم عمری میں ماں بننے والی بچی کی زندگی کو بدترین حالات میں لے جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp