ہیرامنڈی پر پہلے بھی کچھ فلمیں بن چکی ہیں مگر بھارتی ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی ہیرا منڈی پر بنائی گئی نیٹ فلکس سیریز پر حد سے زیادہ اعتراضات سامنے آئے ہیں۔ خاص طور پر شہرِ لاہور کے باسی سوشل میڈیا پر پوسٹس، کمنٹس، وی لاگز اور دیگر ذرائع سے احتجاج ریکارڈ کرواتے نظر آتے ہیں۔
ان کے نزدیک ہیرا منڈی سیریز کی کہانی کا سچائی سے بہت دور کا تعلق ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں پہنے گئے ملبوسات بھی اس علاقے کی ثقافت سے مماثلت نہیں رکھتے۔ اسکرین پر دکھانے گئے محل و حویلیوں جتنا تو اس علاقے کا رقبہ بھی نہیں۔ یہاں موجود حویلیاں اور گھر چند مرلے سے زیادہ کے نہیں جن میں فوارے لگانا بھی ممکن نہیں۔ کئی منازل اور تنگ سیڑھیوں پر مشتمل حویلیاں فلم کے کسی سین سے میچ نہیں کرتیں۔
ہیرا منڈی کی تاریخ 1580 میں بننے والے لاہور کے قلعے سے شروع ہوئی
ہیرا منڈی کی تاریخ 1580 میں بننے والے لاہور کے قلعے سے شروع ہوتی ہے۔ اس جگہ کو مغلوں نے قلعے کے ملازمین کی رہائشگاہوں کے لیے بنایا۔ وقت کے ساتھ فنکاروں نے یہاں آباد ہونا شروع کردیا۔ جہاں بادشاہ اور بڑے خاندان اپنے بچوں کو تہذیب و زباں سکھانے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔ وقت کے بڑے بڑے فنکار یہیں سے نکلے۔
رنجیت سنگھ موراں مائی کے عشق میں گرفتار تھا
مغلوں کے دور کے بعد سکھ دور میں رنجیت سنگھ نے اس علاقے کی حالت کو مزید بہتر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ موراں مائی کے عشق میں گرفتار ہوا اور زیادہ وقت اسی علاقے میں گزارنے لگا۔ ان کے دور میں موراں مائی کے نام سے سکے بھی جاری ہوئے۔ آج موراں مائی کے نام سے اندرونِ لاہور میں مسجد بھی موجود ہے۔
رنجیت سنگھ کے بعد ہیرا سنگھ ڈوگرہ نے یہاں غلہ منڈی تعمیر کروائی۔ جسے ہیرا سنگھ دی منڈی کہا جانے لگا۔ وقت کے ساتھ اس کا نام بگڑتے بگڑتے ہیرا منڈی پڑگیا۔ انگریز دور میں اس علاقے کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور یہ صرف رقص و موسیقی کی محفلوں تک محدود رہا۔