’اب کی بار چار سو پار‘ کے نعرے کے ساتھ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی الیکشن لڑ رہی ہے۔ ’چار سو پار‘ سے مراد دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا ٹارگٹ ہے۔ بی جے پی کی مخالف جماعتیں نروس دکھائی دیتی ہیں۔ الیکشن مہم میں مودی نے پاکستان کا ذکر بھی کیا ہے۔ ظاہر ہے مودی پاکستان کا ذکر کریں گے، تب پھول تو جھڑیں گے نہیں۔
مزید پڑھیں
ایک جلسے میں مودی نے کہا ہے ’ آج پاکستان جس نے ہندوستان کو 70 سال تک پریشان کیا، اس کے ہاتھ میں بم کا گولہ ہوتا تھا اور اب اس کے ہاتھ میں بھیک کا کٹورا ہے۔‘ اس سے پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں مودی کہہ چکے ہیں’ مودی کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان پر اپنا سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دس سال سے پاکستان کو لے کر انڈیا کی پالیسی بنانے کو میں نے تالہ لگا دیا ہے۔ انہوں نے سینتالیس میں اپنا ملک الگ کر لیا تھا۔ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اپنی دو وقت کی اچھی روٹی کھا لیں۔ ہم ان سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔‘
بلوم برگ نے نریندر مودی کی سیاست اور عزائم کا اپنی ایک طویل رپورٹ میں جائزہ لیا ہے۔ اس رپورٹ کی ہیڈ لائن ہے مودی ہزار سال تک اپنے اثرات چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مودی کی تعریف بھی ہو گئی اس کے طعنوں کا بھی ذکر ہو گیا۔ اب ہم ذرا اپنی بات کرتے ہیں۔
جب پاکستان بن رہا تھا تو حوالدار بشیر انگریز کے مخالفوں کی دنیا بھر میں کٹ لگاتا پھر رہا تھا۔ مولوی لوگ پاکستان کے آئیڈیے کی ہی مخالفت کر رہے تھے۔ ملک بن گیا کسی طرح تو دونوں نے آپس میں صلح کی یا نہیں لیکن نیت باندھ لی کہ یہ ملک کیسے چلانا ہے، یہ ہم طے کریں گے اور ہم ہی چلائیں گے۔
ملک ان یاروں نے پھر ایسے چلایا جیسے تازہ خان خالی ٹرالر چلاتا ہے کہ جو سامنے آ گیا، اسے خود بچنا ہے۔ نہ بچ سکا تو شہید۔ ملک اب شہیدوں، غازیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ٹرالر اب بغیر تیل کے کھڑا ہے، ٹینکی فل کرانے کے پیسے ہی نہیں ہیں اب کسی کے پاس۔
حال ہی میں انڈیا نے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ چاہ بہار کا آپریشنل کنٹرول انڈین کمپنی نے دس سال کے لیے حاصل کر لیا ہے۔ اس میں گھبرانے والی کوئی بات ہے نہیں۔ انڈیا اور ایران کچھ نکات طے نہیں کر پا رہے تھے۔ جو کمپنی پورٹ چلا رہی تھی اس کو سال بعد ایک سال کی ایکسٹینشن دے دی جاتی تھی۔ لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے لیے سال، سال کی ایکسٹینشن سے کام نہیں چلتا۔ متنازعہ امور پر اتفاق رائے ہو گیا تو ایک ہی بار دس سال کا آپریشنل کنٹرول انڈین کمپنی آئی جی پی ایل کو دے دیا گیا۔
آئی جی پی ایل جواہر لال نہرو پورٹ ٹرسٹ اور کنڈلا پورٹ ٹرسٹ کا جوائنٹ وینچر ہے۔ جواہر لال نہرو سے بی جے پی کو کوئی محبت نہیں ہے لیکن بطور علامت ایسی کمپنی انڈین اتحاد اور مزاج کا اظہار ہے۔
انڈیا نے ہمارے سی پیک کا آئیڈیا سامنے آنے سے بھی بہت پہلے دو ہزار تین میں چاہ بہار کو ڈویلپ کرنے کی پروپزل ایران کو دی تھی۔ چاہ بہار میں انڈیا کو شاہد بہشتی ٹرمینل کا کنٹرول دس سال کے لیے دیا گیا ہے۔ ایران انڈیا میں تنازعات کی ثالثی کیسے کرنی ہے اس پر اختلاف تھا، جس کی وجہ سے لانگ ٹرم معاہدہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس کا حل اب یہ نکالا گیا ہے کہ ثالثی دونوں ملکوں کے سربراہ حکومت کی مرضی کے مطابق ایک مشترکہ کمیٹی کیا کرے گی۔ اسی چاہ بہار میں افغانستان بھی اپنی ننھی منی سرمایہ کاری کے ساتھ شریک ہو گیا ہے۔
انڈیا اور افغانستان پاکستان کے شارٹ روٹ کی بجائے ایران کی جانب سے وایا بھٹنڈہ ( ٹانگوں کے نیچے سے کان پکڑنا ) کیوں جا رہے ہیں۔ یہ بات ہمارے غور کرنے کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اکنامک پالیسی سیکیورٹی پالیسی سفارت اور سیاست کے زیر اثر رہتی ہے۔ اکانومی ہماری پہلی ترجیح نہیں ہے۔ ہمارا روٹ سارا سال کھلا رہے گا، اس کا اعتبار کرنے کو افغانستان، انڈیا تیار نہیں۔ اب وہ ہمیں بائی پاس کرتے ہوئے لمبے روٹ اختیار کر رہے ہیں۔
اپنا کوئی ارادہ پالیسی بدلنے کا مشورہ دینے کا نہیں ہے۔ صرف توجہ دلانا ہے۔ مودی کے پاس نوٹ اور ووٹ نہ ہوتے تو ابھی کل تک تو وہ چائے پہنچانے والا چھوٹا ہی تو تھا۔ اب نوٹ ہیں تو باتیں سنا رہا ہے۔ ہمارے پاس جب نوٹ ہوں گے تو ہمیں کوئی کیوں باتیں کرے گا۔
پیاری گوبھیو، پہلے بھی لکھا تھا کہ ہم گوبھی کے کھیت جیسے ہیں جو گندے پانی پر پل رہی ہوتی ہیں۔ دور نزدیک سے دیکھو تو مسکراتی اور خوش باش ہی دکھائی دیتی ہیں۔ تو انہی پیاری گوبھیوں سے کہنا ہے کہ یہ جو چاہ بہار پورٹ ہے نا، امریکہ نے اس کو پابندیوں سے استثنا دے رکھا ہے۔ اگر ہم ٹنڈ اور ٹڈ پر خارش کرتے ہوئے کچھ سوچیں تو بہت سے امکانات ہمیں بھی سوجھیں گے۔ ویسے بھی ہم ٹی آئی آر پروٹوکول تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ یو این کا یہ پروٹوکول ریجنل ملکوں کے درمیان لازمی ضرورت کی اشیا کی تجارت کو پابندیوں کے دوران بھی ٹرانسپورٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ ہمیں آؤٹ آف باکس بھی کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ ڈبے کے اندر بند دستیاب سہولتوں کا کھلے دل سے جائزہ لینے اکانومی کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ پھر کوئی مودی ہمیں ایسے طعنے نہیں دے سکے گا۔