’تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی‘

جمعہ 24 مئی 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیا نے کہا تھا:

تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی

یہ شعر بچپن سے لے کر پچپن تک، بار بار پڑھا لیکن اس کا فہم درست طور پر حاصل نہ ہوا۔ پھر پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کی وجہ سے اس کی مکمل سمجھ آئی۔ اب ہمارے سامنے اس شعر کے مفہوم کا ایک پورا جہان آباد ہوچکا ہے۔

یہ عجب اتفاق ہے کہ آج ایک طرف اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے لوگ صوبہ پنجاب میں منظور ہونے والے ‘ہتک عزت قانون’ کے خلاف ان صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں جنھیں وہ پچھلے کئی برسوں سے ‘لفافہ’ کہتے تھے، ان کی تضحیک کرتے تھے، انھیں سرے سے صحافی ماننے ہی سے انکاری تھے، انھیں نوکریوں سے نکلواتے تھے، ان پر حملے کرواتے تھے، اور پھر اس پر تالیاں پیٹتے تھے اور ہنس ہنس کر دوہرے ہوتے چلے جاتے تھے، انھیں قتل کروانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔

دوسری طرف ‘ہتک عزت قانون’ منظور کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما اس قانون کا دفاع کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

ان دونوں جماعتوں کے ٹریک ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آج عمران خان ایوان اقتدار میں ہوتے تو صحافیوں کے خلاف وہی کچھ کرتے جو ان دنوں مسلم لیگ ن کر رہی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ ن بطور اپوزیشن جماعت ‘ہتک عزت قانون’ کے خلاف صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی۔

اگر عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی یادداشت اچھی ہے تو انھیں ‘پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز'( پیکا) نامی قانون بخوبی یاد ہوگا جو انھوں نے ہی منظور کیا تھا۔ وہ بھی تقریباً اسی قسم کا قانون تھا جیسا قانون پچھلے دنوں وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز کی انگشت شہادت کے ایک اشارے پر آناً فاناً منظور کیا گیا۔

وہ تو اللہ بھلا کرے جسٹس اطہر من اللہ کا، جو ان دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے، انھوں نے سن دو ہزار بائیس میں، عمران خان کی ایوان اقتدار سے بے دخلی سے صرف ایک دن پہلے ‘پیکا’ کو کالعدم قرار دیدیا۔ ورنہ عمران خان اس قانون کا ڈنڈا ہاتھ میں پکڑ کر نجانے کیا سے کیا کچھ کر گزرتے۔ انھوں نے اس قانون کی منظوری سے قبل ہی بہت کچھ کر دکھایا تھا۔

‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز تنظیم’ کے مطابق صرف 2020 کے ایک سال میں پاکستان میں چار صحافیوں کا قتل ہوا جو تحقیقی رپورٹنگ، منشیات اور بد عنوانی کے موضوعات پر صحافت کر رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق 2020 میں 180 ممالک میں سے پاکستان کا درجہ 145 تھا جو کہ 2019 کے مقابلے میں تین درجے کی کمی تھی۔ آر ایس ایف کی فہرست کے مطابق سال 2016 اور سال 2017 میں پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری آئی تھی تاہم اس کے بعد پاکستان کی رینکنگ میں پھر تنزلی دیکھی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب عمران خان حکومت یہ قانون منظور کر رہی تھی، اس وقت مسلم لیگ ن اس قانون کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی، اسے بنیادی حقوق کے منافی قرار دے رہی تھی۔ حالانکہ  سن دو ہزار سولہ میں اس قانون کی تیاری کا عمل بند دفتروں میں، مسلم لیگ ن ہی نے  مکمل کیا تھا۔ ہاں! عمران خان نے عدالت کے حکم پراس قانون کو کچھ ترامیم کے بعد منظور کیا تھا۔ اس وقت ( دو ہزار بائیس میں)  نہ عمران خان کو خفت محسوس ہورہی تھی کہ وہ کس پارٹی کا بنایا ہوا قانون منظور اور نافذ کر رہے ہیں اور نہ ہی مسلم لیگ ن کے حیا آڑے آئی کہ وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کے خلاف بینر، کتبے پکڑے نعرے لگا رہی ہے۔

یہ طرزعمل محض پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن ہی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں  ہر دور حکومت میں یہ محاورہ کسی کائناتی حقیقت کی طرح آشکار ہوا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ جنرل محمد ایوب خان کے ‘ پاکستان پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس’ سے محترمہ مریم نواز شریف کے ‘ ہتک عزت قانون’ تک، متعدد کوششوں کی ایک طویل داستان ہے آزادی اظہار رائے کو قابو کرنے اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا فائدہ ہوا ایسی کوششوں کا؟؟ ہر عہد میں چند صحافی قتل کردئیے گئے، چند کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈال دیا گیا، چند پر بدترین تشدد کیا گیا اور چند ایک کو بے روزگار کردیا گیا لیکن آزادی اظہار رائے کا سفر رک نہیں سکا۔ اور ہر پابندی لگانے والا اپنا قانون ہاتھ میں پکڑے موت کے گھاٹ اتر گیا۔

پاکستان میں مسئلہ سچی اور جھوٹی خبر کا نہیں، مسئلہ کچھ اور ہی ہے جس کی وجہ سے اصل مسئلہ لاینحل ہی رہتا ہے۔ اہل صحافت بھی چاہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا یا پھر سوشل میڈیا، کوئی بھی آزادی اظہار رائے کا غلط فائدہ نہ اٹھائے، غلط خبریں نہ نشر کرے۔ ایسی کوششوں کا سدباب ہونا چاہیے۔لوگوں کو صرف اور صرف درست خبر ملنی چاہیے۔ اہل اقتدار بھی قانون نافذ کرتے ہوئے ایسے ہی مقاصد بیان کرتے ہیں۔

مسئلہ صرف عدم اعتماد کا ہے۔ آزادی اظہار رائے کا پرچم بلند کرنے والوں کو شدید خطرہ محسوس  ہوتا ہے کہ اہل اقتدار ایسے قوانین نافذ کرکے لوگوں کا گلا گھونٹ دیں گے۔ اس خدشے کی بنیاد حکمران گروہوں کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ وہ جھوٹی تعریف پر مبنی خبر پر جھوم اٹھتے ہیں اور خبر دینے والے پر انعام و اکرام کی بارش کر دیتے ہیں جبکہ درست تنقیدی خبر پڑھ، سن کر ان کے منہ حلق تک کڑوے ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ایسے صحافیوں کو دیوار میں چن دینے کا فرمان جاری کر دیتے ہیں۔

مسلم لیگ ن نے صوبہ پنجاب میں جو ‘ہتک عزت قانون’ منظور کیا ہے، اس کے مطابق خصوصی ٹریبیونلز قائم کیے جائیں گے۔ یہ ٹریبیونلز اس قدر طاقتور ہوں گے کہ ان کی کارروائی کے خلاف کوئی عدالت حکم امتناعی جاری نہیں کرسکے گی۔ یہاں’ ملزم’ کو لائے جانے سے پہلے ہی اس کی جیب سے تیس لاکھ روپے بطور جرمانہ نکال لیے جائیں گے، اس کے بعد ہی اس کے خلاف ٹریبیونل میں مقدمہ دائر کیا جائے گا۔اس مقدمہ کا فیصلہ چھ ماہ کی مدت میں کیا جائے گا۔ ممکن ہے کہ ہر مقدمہ کا فیصلہ چھ ماہ مکمل ہونے پر ہی ہو۔

مسودے کے مطابق اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آئے گا ‘جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔’ واضح رہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ایپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹویٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک وغیرہ شامل ہیں۔

مسلم لیگی رہنما کہتے ہیں کہ ہتک عزت کے قوانین دنیا بھر میں موجود ہیں اور مرتکب افراد کو سخت سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ تاہم وہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بغلیں جھانکتے ہیں کہ  محض الزام عائد ہونے پر، مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی تیس لاکھ روپے جرمانہ کی شق دنیا کے کس قانون اور اصول کے مطابق شامل کی گئی ہے؟

اگر ‘ملزم’ کے خلاف الزام جھوٹ ثابت ہو تو اس کی چھ ماہ قید کا مداوا کیسے ہوگا اور اس کے گھر والے جو اپنا گھربار بیچ کر تیس لاکھ روپے حکومت کے سامنے پیش کریں گے، اور پھر معاشی اعتبار سے بھی خوب خوار ہوچکے ہوں گے، ان کی اس بربادی کا مداوا حکومت کرے گی؟

ہر قانون کی تیاری سے نفاذ تک، ایک مکمل عمل ہوتا ہے، پہلے اس پر معاشرے میں بحث و مباحثہ ہوتا ہے، پھر اس پر اسمبلی میں لمبی چوڑی بحث ہوتی ہے، اس کے بعد ووٹنگ ہوتی ہے اور قانون معرض وجود میں آتا ہے۔ پنجاب میں ہتک عزت کا قانون ان سب مراحل سے گزرا؟

شاید مسلم لیگ ن  والے بھی سمجھتے ہیں کہ وہ اب کبھی ایوان اقتدار سے نہیں نکالے جائیں گے، اب ان کا کلّہ مضبوط ہے، سبب یہ ہے کہ وہ ‘ایک صفحہ’ پر ہیں۔اور یہ کہ انھوں نے اس ایک صفحہ کی اہمیت کو مان لیا ہے۔ مسلم لیگ ن کا قیام بھی ایک صفحہ پر ہوا تھا، پھر نوازشریف نے یہ ایک صفحہ پلٹنے کی کوشش کی تھی تو آج تک خمیازہ بھگتنا پڑا، حتیٰ کہ بقول واقفانِ حال چوتھی بار وزیراعظم بھی نہ بننے دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جناب شہباز شریف تاریخی تناظر میں برادرِ بزرگ کو ایک کتاب پڑھ کر سناتے رہتے ہیں، جس کا عنوان ہے:’ ایک صفحہ کی برکات’۔

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک صفحہ پر ہونے سے تاحیات اقتدار مل جاتا ہے؟

جناب عمران خان تو پیدا ہی ایک صفحہ پر ہوئے تھے، وہ اس کی اہمیت سے آج تک انکاری نہیں ہوئے، اس کے باوجود وہ اڈیالہ جیل میں دھکیل دئیے گئے۔ سیانے کہتے ہیں کہ وقت بدلتے پتہ بھی چلتا۔ کسی کا جملہ مستعار لیتے اور اس میں کچھ ترمیم و اضافہ کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں جو کہتے تھے کہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے۔

ابھی اگلے روز کی بات ہے کہ جناب عمران خان بھی کم از کم دو ہزار بتیس تک ایوان اقتدار میں رہنے کا منصوبہ بنا کر آئے تھے۔ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں، ان کے ساتھی دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ دو ہزار تئیس اور پھر دو ہزار  اٹھائیس کے عام انتخابات بھی جیتیں گے۔ اس وقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ محض ساڑھے تین برس بعد ایوان اقتدار سے نکال باہر  کیے جائیں گے۔

پھر جیسے ہی انھیں نکالا گیا ، وہ فوراً کھڑے ہوکر میڈیا کی معاشرے میں اہمیت، اور اس کے فضائل و مناقب بیان کرنے لگے۔ اور اب بھی اس باب میں مغرب کی مثالیں دیتے رہتے ہیں۔  کل تک جو تیرگی ان کی زلف میں حسن کہلا رہی تھی، وہی تیرگی مسلم لیگ ن کے نامہ میں سیاہی کا دھبہ قرار دی جارہی ہے، حالانکہ تیرگی تو تیرگی ہی ہوتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp