چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا کہ عدالتوں کا احترام نہیں ہوگا تو ہم سے بھی امید نہ رکھی جائے، بار اور بینچ کی آپس کی لڑائی میں ادارے کمزور ہوتے ہیں۔ وکلا ان افراد سے ہوشیار رہیں جو اداروں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس شہزاد ملک نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی بھی ادارے کی بی ٹیم نہیں بننا، لڑائی نہیں چاہتے لیکن تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ جج ہونا نوکری نہیں، اس دوران نوکری جانے کا خوف دل سے نکال لینا چاہیے۔
مزید پڑھیں
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نئے ججز میں خواتین کی تعداد، بھی موجود ہے، پری سروس ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد عملی انصاف کی جانب گامزن ہوں گے، نئے ججز مشکل مراحل سے گزر کر آج پنجاب کی عدلیہ کا حصہ بنے ہیں، عدل کرنا اللہ تعالی کی صفت ہے اور ایک جج اللہ کی جانب سے چنا جاتا ہے۔
’جج بے خوف، بے لالچ، جرات مند اور دانشمند ہوتا ہے، جج ہونا نوکری نہیں ہے، جس میں انسان نوکری جانے کا خوف رکھے‘۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ کے قریب مقدمات زیرالتوا ہیں۔ پنجاب کی عدلیہ میں نئے ججز کو شامل کرکے 1760 ججز تعینات ہیں، پنجاب کی عدلیہ میں 800 جوڈیشل افسران کی کمی ہے، دنیا کے ساتھ مقابلے میں ہمارے ججز سب سے زیادہ کام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا کہ زیرالتواء مقدمات میں کمی لانے کے لیے ویڈیو لنک سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے، پنجاب میں بہت جلد شہادتوں کے ریکارڈ اور عدالتی کارروائی کے لیے ویڈیو لنک کا آغاز ہو جائے گا، ججز کو چاہیے کہ وہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل کریں۔
’پاکستان میں اے ڈی آر سے مکمل طور پر استفادہ نہیں کیا جارہا ہے، پوری دنیا میں انصاف کے متبادل نظام قائم کردیے گئے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ ہڑتال کلچر ہے، لاہور میں گزشتہ عرصہ میں 73 دن تک عدالتیں بند کردی گئیں، صوبے کے کیپیٹل میں جنگل کا قانون نافذ کردیا گیا تھا۔ عوام کے انصاف تک رسائی کے حقوق کو ختم کردیا گیا تھا، 90 فیصد سے زائد وکلا پروفیشنل ہیں۔ پروفیشنل وکلا نے ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے ججز نے ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں بہترین کرداد ادا کیا، ہڑتال کی کال کے باوجود چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے باقی ججز نے مقدمات کی سماعت کی۔ ہم سب کو اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔
’باعث مسرت ہے کہ کسی بھی ہائیکورٹ بار نے ہڑتال کی کال نہیں دی، انشاءاللہ عدالتوں کا تقدس برقرار رہے گا اور یہ ہڑتال کلچر ختم ہوگا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عدالتی نظام کسی طاقتور کے لیے نہیں بنا ہے، یہ عدالتی نظام مظلوم کی دادرسی کے لیے بنایا گیا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ سے متعلق بات کرتے ہوئے ملک شہزاد احمد نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان بانی پاکستان کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے بیٹے ہیں، قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ آئین و قانون کو مقدم رکھا ہے۔