تاریخ کے صفحات پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایک کیس پاکستان کی تاریخ کا ایسا بھی تھا جس میں اس وقت کے وزیر اعظم کے خلاف ایک طیارہ اغوا کرنے کا کیس بنایا گیا۔ ہائی جیکرز عموماً طیارے کے اندر ہوتے ہیں لیکن اس کیس میں معاملہ الٹ ہی تھا۔
مزید پڑھیں
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طیارے کو اگر کسی ایک ایئرپورٹ پر اترنے میں مسئلہ درپیش بھی تھا تو شہر میں کئی دیگر آپشنز بھی موجود تھے لیکن بہرحال اسے طیارہ ہائی جیکنگ کا رنگ دے کر اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
کراچی میں چلنے والے اس کیس میں کیا ہوتا رہا اس سے پردہ اٹھانے کے لیے وی نیوز نے بات کی سینیئر کورٹ رپورٹر لیاقت علی رانا سے جنہوں نے اس ٹرائل کو قریب سے دیکھا اور رپورٹ کیا تھا۔
’یہ پہلی بار تھا کہ طیارہ ہوا میں اور ہائی جیکر زمین پر تھا‘
لیاقت علی رانا بتاتے ہیں کہ اس وقت ہم صحافی اس بات پر حیران تھے کہ یہ کیسی ہائی جیکنگ ہے کہ طیارہ ہوا میں ہے اور ہائی جیکر زمین پر جبکہ دیکھا جائے تو کراچی ایئر پورٹ کے علاوہ بھی کئی جگہیں بشمول مسرور بیس، کیماڑی بیس اور فیصل بیس تھے جہاں طیارے کو اتارا جا سکتا تھا لیکن نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا جانا تھا اس لیے معاملے کو وہ رنگ دے دیا گیا۔
’جب صرف 2 صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ملی‘
لیاقت علی رانا بتاتے ہیں کہ جب نواز شریف کو اس کیس میں گرفتار کرکے لایا گیا تو اس وقت جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر سعد قریشی کے سامنے ریمانڈ کے لیے پیش کیا گیا لیکن پہلی سماعت پر کسی صحافی کو اندر جانے نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد صحافیوں نے مجسٹریٹ سے ملاقات کی تو جگہ کی تنگی کے باعث انہوں نے کہا کہ میں نہیں چاہتا مس رپورٹنگ ہو اس لیے صرف 2 صحافیوں کو اندر آنے کی اجازت ہوگی جن میں ایک کا تعلق اردو جبکہ دوسرے کا انگریزی اخبار سے ہوگا۔
’جب پیشی کے دوران سینیئر صحافی ضرار خان پر تشدد ہوا‘
لیاقت علی رانا بتاتے ہیں کہ نواز شریف سمیت دیگر کا جب ریمانڈ ختم ہوا اور انہیں جیل بھیجا گیا تو ان کا ٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت کے ایم سی کمپلکس میں شروع ہوا۔ وہاں بھی جگہ کی تنگی کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بار نواز شریف کی پیشی کے دوران پولیس سے مڈبھیڑ ہوئی تو سینیئر صحافی ضرار خان کو ڈنڈا مارا گیا جس کی وجہ سے ان کی انگلی فریکچر ہو گئی تھی جس کے بعد صحافیوں نے احتجاج کیا جس میں وکلا نے بھی صحافیوں کا ساتھ دیا۔
لیاقت علی رانا مزید بتاتے ہیں کہ کیس کو ایک بار پھر منتقل کیا گیا اور اس بار کیس کلفٹن کے علاقے میں جسٹس رحمت حسین جعفری کی عدالت میں منتقل ہوا جہاں جگہ کا مسئلہ حل ہوا تو تمام رپورٹرز کو ٹرائل کوور کرنے کا موقع ملا۔
نواز شریف کے وکلا پر جادو کیے جانے کی خبر
لیاقت علی رانا نے بتایا کہ اس وقت صحافی قاری صداقت قومی اخبار کے ساتھ منسلک ہوا کرتے تھے، دوران ٹرائل غوث علی شاہ کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ وحید کا پاؤں پھسلا اور وہ لڑکھڑا گئے تو قاری صداقت نے اپنے ادارے کو خبر لکھوائی کے نواز شریف کے وکلا پر جادو کر دیا گیا ہے۔
’نواز شریف کو اپنے گرد خوشامدی افراد پسند تھے‘
لیاقت علی رانا کہتے ہیں کہ کراچی کے صحافی نواز شریف سے مطمئن نہیں تھے وہ صرف احسن اقبال کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ نواز شریف کے گرد وہی لوگ ہوتے تھے جو ان کو پسند تھے یا ان کی تعریفیں کرتے جبکہ دیگر صحافی اس رویے سے نالاں تھے۔
جیسے جیسے کیس چلتا رہا تو صحافیوں کی رائے یہ بنتی گئی کہ اس کیس میں کچھ نہیں ہے کیوں کہ ٹرائل کے دوران پروسیکیوشن ایسا کچھ نہ لا سکی جس سے ثابت ہوسکے کہ طیارہ ہائی جیک ہوا تھا۔
حکومت کے احکامات نہ ماننے پر جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے گیا تھا، رانا مقبول
لیاقت علی رانا بتاتے ہیں کہ اس کیس میں ایسا کچھ خاص نہیں تھا جب گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے تو 2 گواہوں نے بتایا کہ ہمیں میاں محمد نواز شریف کی طرف سے احکامات ملے تھے۔ شریک ملزم اور اس وقت کے آئی جی سندھ رانا مقبول سے جب پوچھا گیا کہ آپ کو جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری کے احکامات کہاں سے ملے تو انہوں نے کہا تھا کہ مجھے کون آرڈر کرے گا؟ میں تو خود گرفتار کرنے گیا تھا کیوں کہ پرویز مشرف حکومت کے احکامات نہیں مان رہے تھے۔
جب میاں محمد نواز شریف کو سزا سنا دی گئی
لیاقت رانا بتاتے ہیں 10 اپریل 2000 کو جج رحمت حسین جعفری نے میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنائی جبکہ میاں محمد شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی اور رانا مقبول سمیت دیگر کو بری کردیا گیا تھا۔
جج رحمت حسین جعفری
سینیئر صحافی کے مطابق جس دن فیصلہ سنانا تھا اس دن جج رحمت حسین جعفری نے پہلے 2 رکعت نماز پڑھی اس کے بعد یکے بعد دیگرے میاں محمد نواز شریف سمیت تمام ملزموں کو چیمبر میں بلایا اور سب سے پوچھا کہ اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے تو میں اس کیس کا فیصلہ سناؤں گا اور اگر آپ کو اعتماد نہیں تو لکھ کر دے دیں میں کیس چھوڑ کر گھر چلا جاؤں گا لیکن تمام نے کہا کہ ہمیں آپ پر اعتماد ہے آپ فیصلہ سنائیں، سب کو اس بات کا یقین تھا کہ اس کیس میں شاید نواز شریف کو سزائے موت سنا دی جائے گی اور دوسروں کو بھی سزا ہو جائے گی۔
سزا کے وقت کمرہ عدالت کا ماحول
کمرہ عدالت کا احوال رانا لیاقت کچھ یوں بتاتے ہیں کہ 2 قطاریں صحافیوں کے لیے تھیں آگے فرانسیسی ایمبیسڈر بیٹھی تھیں اور 2 قطاریں پیچھے تھیں۔ مریم نواز اور مرحومہ کلثوم نواز بیٹھی تھیں ساتھ ہی دیگر ملزمان کے اہل خانہ تھے۔
نواز شریف نے دوران ٹرائل صحافیوں کو کیا لکھ کر دیا؟
لیاقت علی رانا کہتے ہیں کہ نواز شریف، کلثوم نواز اور مریم نواز کی صحافیوں سے کوئی گفت و شنید یا رابطہ نہیں ہوتا تھا لیکن دوران ٹرائل ایک بار نواز شریف نے صحافیوں کو لکھ کر دیا کہ یہ کیس بے بنیاد ہے اور میرے ساتھ جو ہوا وہ غلط ہے یہ کیس بغض سے بھرے ہوئے لوگوں نے بنایا ہے، کوئی ہائی جیکنگ نہیں ہوئی۔
عدالت نے جب نواز شریف کو بولنے کے لیے 45 منٹ دیے
لیاقت علی رانا کہتے ہیں عدالت نے دوران ٹرائل میاں محمد نواز شریف کو 45 منٹ تک بولنے کا موقع فراہم کیا لیکن جیسے وہ آج بھی کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا اس وقت بھی انہوں نے کمرہ عدالت میں وہی باتیں کیں جو اب بھی کرتے ہیں کہ میرے ساتھ انہوں نے ظلم کیا۔
اس وقت کے سینیئر صحافیوں کا خیال تھا کہ اگر یہ موقع ذوالفقار علی بھٹو کو ملتا تو وہ دنیا ہلا کر رکھ دیتے لیکن نواز شریف اپنے گرد گھومتے رہے کہ مجھے جس سیل میں رکھا گیا وہاں سونے کا موقع نہیں دیتے پانی ٹپ ٹپ کرتا رہتا ہے، الغرض وہ اسی طرح کی باتیں کرتے رہے۔
جب نواز شریف جذباتی ہوگئے
صحافی کے مطابق جب یہ کیس کے ایم سی کمپلیکس میں تھا اس وقت ہم نے 200 گز کے فاصلے سے دیکھا کہ تہمینہ دولتانہ نواز شریف سے ملنے آئی تھیں تو ماحول جذباتی ہو گیا تھا اور ایسا لگا جیسے نواز شریف کی انکھوں میں آنسو بھر آئے ہوں۔
جب فیصلہ سنایا گیا تو مریم نواز چیخ پڑیں
رانا لیاقت کے مطابق فیصلے والے دن چیکنگ ہو رہی تھی اور ہم 2 گھنٹے بعد کمرہ عدالت میں داخل ہوئے، پورا آڈیٹوریم وکلا، غیر ملکی سفارت کاروں، صحافیوں اور ملزموں کے اہل خانہ سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایاکہ ترتیب کچھ ایسی تھی کہ پہلے وکلا، پھر سفیر اس کے بعد صحافی اور پھر ملزمان کے اہل خانہ بیٹھے تھے۔ مریم نواز اور کلثوم نواز پچھلی نشستوں پر براجمان تھیں۔
لیاقت رانا نے بتایا کہ جب جج نے فیصلہ سناتے ہوئے عمر قید کے الفاظ ادا کیے تو وہ سنتے ہی مریم نواز نے ایک چیخ ماری اور سب کی نظریں ان کی طرف اٹھ گئیں۔