19 نومبر 2019 کی صبح لاہور کے فضائی اڈے سے نواز شریف لندن کے لیے روانہ ہوئےتو دوبارہ وطن واپسی میں 3 سال 11 مہینے اور 2 دن کا عرصہ لگ گیا۔
ائیر ایمبولینس نے لاہور ایئر پورٹ سے ٹیک آف کیا تو اس وقت وزارت عظمیٰ کا تاج پہنے ہوئے عمران خان کو ایک برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا۔ نواز شریف کا وزارت عظمٰی سے جیل اور پھر جیل سے جلاوطنی کا یہ سفر پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ بلکہ 19 برس پہلے دسمبر 2000 میں بھی انہوں نے ایک بار ایسی ہی اُڑان بھری تھی۔
اپنی دوسری اور تیسری وزارت عظمیٰ میں نواز شریف کو پہلے تو اقتدار سے بے دخلی اور پھر جیل کی راہ دیکھنا پڑی تھی۔ ان واقعات میں اس حد تک تو مماثلت ہے کہ دونوں بار انہیں زیادہ وقت جیل میں نہیں گزارنا پڑا اور وہ کچھ ہی عرصے میں ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ پہلی جلا وطنی کے خاتمے کے بعد نواز شریف کی سزا عدالتی فیصلے کے ذریعے ختم کر دی گئی تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بار بھی عدالتیں سزا ختم کرتے ہوئے انہیں مقدمات سے بری کر دیں گی؟ اس کے لیے آئیے ذرا نواز شریف کے وزارت عظمیٰ سے جیل اور پھر جلا وطنی تک کے دونوں مرتبہ کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں۔
نوازشریف، وزارت عظمٰی سے جیل تک
12 اکتوبر 1999 کو مارشل لا کے نفاذ کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو نواز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے جیل کی راہ دیکھنی پڑی۔ طیارہ اغوا کیس میں امکان تھا کہ جنرل پرویز مشرف انہیں پھانسی گاٹ تک لے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے اندرون ملک کے علاوہ عالمی سطح پر بھی جنرل مشرف پر خاصا دباؤ آیا۔
مارچ 2000 کی 25 تاریخ کو امریکی صدر بل کلنٹن نے جنوبی ایشیا کے دورے میں 5 گھنٹوں کے لیے پاکستان میں قیام کیا تو اس دوران نواز شریف کے مستقبل پر بھی بات ہوئی۔ اگر چہ اس حوالے سے عالمی نیوز ایجنسی ’اے ایف پی‘ نے رپورٹ دی تھی کہ ’امریکی صدر نے نواز شریف کی جان بخشی کا مطالبہ کیا ہے، جسے مشرف نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے‘ لیکن بعد کے حالات نے کچھ اور ہی ثابت کیا۔
پہلی جلاوطنی
6 اپریل 2000 کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے نواز شریف کو 2 مرتبہ قید بامشقت، 5 لاکھ روپے جرمانہ اور جائیداد ضبط کرنے کی سزا سنائی۔ اگرچہ حکومت نے ان سزاؤں کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل دائر کر کے اسے سزائے موت میں بدلنے کی درخواست کی تھی مگر 30 اکتوبر 2000 کو لاہور ہائیکورٹ کے فل بینچ کا فیصلہ آیا تو سب سمجھ گئے کہ سمجھوتا ہو گیا ہے۔
جنرل مشرف پر عالمی دباؤ اور نواز شریف کے بیرونی دوستوں کی مدد کے نتیجے میں جلد ہی سابق وزیراعظم کو جیل سے بیرون ملک روانگی کا پروانہ مل گیا۔اس وقت کے جاری کردہ سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ ’صدرِ پاکستان رفیق تارڑ نے چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف کے مشورے پر نواز شریف کی سزا معاف کر دی ہے اور انہیں اہل خانہ سمیت جلاوطن کر دیا ہے‘۔
والد کے انتقال پر نوازشریف واپس نہیں آسکے
بیرون ملک روانگی کے بعد جاوید ہاشمی کو بچی کھچی جماعت کا سربراہ بنا دیا گیا اور نواز شریف کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گئے۔ اس دوران رفیق تارڑ کو ہٹا کر جنرل مشرف خود صدر بن گئے اور نائن الیون کے بعد امریکی حمایت کے فیصلے پر ان کی کرسی کافی حد تک محفوظ ہو گئی۔
2002 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی محض 18 نشستیں لے سکی۔ اس دوران شریف خاندان کے تقریباً سبھی افراد بیرون ملک ہی شاہی مہمان بنے رہے۔ مئی 2004 میں شہباز شریف نے ایک بار پھر پاکستان آنے کی کوشش کی مگر انہیں لاہور ایئر پورٹ سے واپس بھجوا دیا گیا۔
29 اکتوبر 2004 کو میاں محمد نواز شریف کے انتقال کے بعد جب ان کی میت پاکستان لائی گئی تو نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ہی ساتھ واپس نہیں آسکے تھے۔ صرف حمزہ شہباز ہی خاندان کے ایسے سیاسی وارث تھے جو یہاں ان کے جنازے اور تدفین کے عمل میں شریک ہو سکے۔
میثاق جمہوریت اور واپسی کا قصد
14 مئی 2006 کو ملک کے 2 سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے مستقبل کے سیاسی عزائم کا اظہار کر دیا۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور بے نظیر کی جانب سے عالمی سطح سے ڈالوائے گئے دباؤ کے باعث پرویز مشرف بے نظیر کے ساتھ ڈیل پر مجبور ہو گئے۔
2007 کے انتخابات سے قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف اور شہباز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ شہباز شریف نے آخری وقت پر اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا لیکن نواز شریف 10 ستمبر 2007 کو 7 برس کی جلا وطنی کا خاتمہ کر کے راولپنڈی میں قائم فضائی اڈے پر پہنچ گئے۔
اس دن مسلم لیگ ن نے ضلع راولپنڈی میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور کوئی بھی بڑا رہنما کارکنوں کو لے کر ایئر پورٹ ہی نہ پہنچ سکا۔ نواز شریف کو اسلام آباد ایئر پورٹ پر لینڈ کرنے کے بعد طیارے سے باہر آتے ہی گرفتار کر لیا گیا اور کچھ ہی گھنٹوں بعد خصوصی طیارے میں واپس بیرون ملک بھیج دیا گیا۔
نواز شریف کی وطن واپسی کی دوسری کوشش اس وقت کامیاب ہوئی جب 18 اکتوبر 2007 کو بے نظیر بھٹو 8 برس کے بعد کراچی آئیں۔ لال مسجد آپریشن، وکلاء تحریک اور دہشتگردی کے واقعات کے سبب جنرل مشرف کی حکومت خاصی کمزور ہو چکی تھی۔ اس طرح 25 نومبر 2007 کو نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ جب لاہور ایئر پورٹ پر پہنچے تو انہیں اس مرتبہ روکا نہیں گیا۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاق میں حکومت قائم ہوئی اور پنجاب میں نواز شریف کے چھوٹے بھائی نے اقتدار سنبھال لیا۔
تیسری وزارت عظمٰی
2013 میں نواز شریف نے تیسر ی مرتبہ وزارت عظمٰی کا عہدہ سنبھالا تو اس بار ان کے لیے دہشت گردی، بجلی بحران اور اقتصادی میدان میں گراؤٹ بڑے چیلنجز تھے۔ اختیارات کے معاملے پر اختلاف نے ایک بار پھر نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں پیدا کر دیں۔
2016 میں ’ڈان لیکس‘ اور پھر پانامہ پیپرز کیس نے اسٹیبلشمنٹ اور ہم خیال بینچ کو وزارت عظمٰی سے برطرفی کا جواز فراہم کر دیا تھا۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے 5 رکنی بینچ نے وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے برطرف کر تے ہوئے ان کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا۔
ایک برس بعد جب جولائی 2018 میں انتخابات سے چند ہفتے قبل نواز شریف، مریم نوز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو سزا سنائی گئی تو نواز شریف اور مریم دونوں ہی بیگم کلثوم نواز کے علاج کی غرض سے لندن میں موجود تھے۔
پاکستان واپسی پر گرفتاری
بیگم کلثوم نواز کو لندن ہی میں چھوڑ کر نواز شریف اور مریم نواز 2018 کے انتخابات سے 2 ہفتے قبل 13 جولائی کو ہی واپس پاکستان آ گئے۔ لاہور ایئر پورٹ پر جب میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی پہنچے تو ان کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی ریلی نکالنے والے شہباز شریف شہر کی بھول بھلیوں ہی میں گم ہو چکے تھے۔
3 دفعہ وزیراعظم کے عہدے پر رہنے والے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو گرفتار کر کے پہلے اسلام آباد اور پھر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ 2018 کے انتخابات میں نواز شریف کے سیاسی حریف عمران خان کامیاب ہو گئے اور پھر ایک ایک کر کے کئی ن لیگی رہنماؤں کو جیل کی یاترا کے لیے بھیج دیا گیا۔
جیل سے دوبارہ جلاوطنی تک
2019 میں21 اور 22 اکتوبر کی درمیانی شب دوران قید نوازشریف کو طبیعت زیادہ خراب ہونے پر سروسز اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمٰن آزادی مارچ لیے اسلام آباد بھی پہنچ چکے تھے۔ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر پہلے جیل سے ضمانت ملی اور پھر انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی بھی اجازت دے دی گئی۔
بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے معاملے پر حکومت اور عدلیہ نے ایک دوسرے کو میڈیا پر نشر ہونے والی تقریروں میں ذمہ دار قرار دیا۔ چند روز اسپتال اور پھر گھر میں گزارنے کے بعد نواز شریف لندن روانہ ہوئے تو اگلے4 برس تک واپسی کی راہ بھول گئے۔
بیرون ملک روانگی کے معاملے پر کچھ حلقوں نے ڈیل کا بھی الزام لگایا اور اس الزام میں مزید جان اُس وقت آ گئی جب جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے قانون پر مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف نے اپنے ممبران کو غیر مشروط حمایت کا حکم دیا۔
اپریل 2022 میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ایک صفحے پر کھڑی عمران، باجوہ پارٹنرشپ ٹوٹ گئی۔
شہباز حکومت اور واپسی کی خبریں
عمران خان کے الزامات نے مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) اور اتحادیوں پر مشتمل حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کے لیے موزوں ترین پارٹنر بنا دیا۔ شہباز شریف کی وزارت عظمٰی کے دوران کئی مرتبہ ن لیگی رہنماؤں کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ نواز شریف چند ہفتوں میں پاکستان واپس آجائیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
اب شہباز شریف وزارت عظمٰی سے اتر کر انتخابی مہم کے لیے نواز شریف کی آمد کے منتظر ہیں جب کہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف عمران خان جیل میں قید ہیں۔ بظاہر عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کے لیے وہی صورتحال ہے جو 2018 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے لیے تھی۔
ہائیکورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد فی الحال نواز شریف کی وطن واپسی پر گرفتاری کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے، لیکن شہباز حکومت کی کارکردگی اور عوامی دباؤ کیا اگلے مہینوں میں دوبارہ نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزارت عظمٰی پر بیٹھنے کا موقع دیں گے، اس کا فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔