دنیا کا سب سے اونچا اور پرانا درخت کیلی فورنیا کے صنوبر کے نیشنل پارک میں ہے۔ یہ پارک دنیا میں صنوبر کا سب سے بڑا قدرتی جنگل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صنوبر کا درخت 3 ہزار برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔ اس پارک کے بلند اور قدیم درختوں کو بھونروں سے خطرہ ہے۔ یہاں موجود دنیا کے قدیم ترین 22 سو برس کے ایک درخت کو صحت مند قرار دیدیا گیا ہے۔
جہانِ فانی میں، جہاں انسان کے لیے 100 برس کی عمر تک پہنچنا بھی بہت مشکل ہے، وہاں ایک ایسا درخت بھی موجود ہے جس کی عمر 2200 سال سے زیادہ ہے۔ اس درخت کی صرف عمر ہی زیادہ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے قد کاٹھ میں بھی دنیا کے تمام درختوں سے اونچا ہے۔ اس کی بلندی 85 میٹر یعنی قریباً 280 فٹ ہے اور اس کے وزن کا تخمینہ 42 لاکھ پونڈ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اکیلا ہی اونچا اور پرانا درخت نہیں ہے، بلکہ اس کے آس پاس اس جیسے اور بھی ہزاروں درخت موجود ہیں، لیکن ’جزل شرمن‘ کو یہ اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ صنوبر کے درختوں کے اس قدرتی جنگل میں اس کا سر سب سے بلند ہے۔ اس درخت کو ’جنرل شرمن‘ کا نام 1879 میں دیا گیا تھا۔ اس نام کی نسبت جنرل ولیم شرمن سے ہے جو امریکا کی سول وار کے ایک اہم جنرل تھے۔
مزید پڑھیں
’جنرل شرمن‘ کیلی فورنیا کے صنوبر کے قدرتی جنگل میں اپنا سر فخر سے بلند کیے کھڑا ہے اور اسے دیکھنے کے لیے ہر سال دنیا بھر سے لاکھوں سیاح آتے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس جنگل کے صنوبر کے درخت سن عیسوی شروع ہونے کے لگ بھگ یا اس سے 300 سال پہلے پیدا ہوئے تھے، اس لیے ان کی عمریں 2 ہزار سال سے زیادہ ہیں۔
اب عمر کے تعین کے جدید سائنسی طریقے بھی موجود ہیں، جس کے تحت ’جنرل شرمن‘ کی عمر کا تخمینہ 2200 سال لگایا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب اس نیشنل پارک کی انتظامیہ نے بھونروں کو ’جزل شرمن‘ کے گرد منڈلاتے دیکھا تو انہیں اس کی صحت کی فکر ہوئی۔ بھنورے پھولوں کے ہی نہیں درختوں کے بھی بہت بڑے دشمن ہیں۔
شاید آپ کو جان کر حیرت ہو کہ بھونرا ایک ایسا ننھا جاندار ہے، جس کی لاکھوں اقسام ہیں۔ اڑنے والے بھونرے کم کم ہی ہیں، ان کی زیادہ اقسام رینگنے والے بھونروں کی ہیں۔ یہ بھونرے پودوں اور درختوں کے بہت بڑے دشمن ہیں۔
نیشنل پارک میں صنوبر کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ’سیو دی ریڈ وڈز لیگ‘ کے ڈائریکٹر بن بلوم کہتے ہیں کہ صنوبر کو گرم آب و ہوا اور اس کے نتیجے میں بھڑکنے والی جنگلاتی آگ سے تو خطرہ تھا ہی، اب تازہ خطرہ بھونروں سے بھی ہو گیا ہے۔
پارک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2020 اور 2021 میں جنگل کی آگ نے نیشنل پارک کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ صنوبر کے 20 فی صد درخت جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ آگ سے پہلے اس پارک میں صنوبر کے درختوں کی تعداد 75 ہزار کے لگ بھگ تھی۔
حال ہی میں ماہرین کو نیشنل پارک میں صنوبر کے 40 ایسے مردہ درخت ملے ہیں جن پر بھونروں نے حملہ کیا تھا اور وہ اس کے انفیکشن کی وجہ سے سڑ گئے تھے۔
بھونروں کے حملے کا طریقہ مختلف ہے۔ پہلے وہ پتوں پر ڈیرہ ڈالتے ہیں۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چھوٹی شاخوں سے بڑی شاخوں کی طرف بڑھتے ہیں اور آخر میں درخت کے تنے میں گھس جاتے ہیں، جس سے درخت کے اندر انفیکشن پھیل جاتا ہے اور درخت کو خوراک کی فراہمی رک جاتی ہے۔
کچھ عرصہ پہلے نیشنل پارک کی انتظامیہ کو ’جنرل شرمن‘ پر بھونرے دکھائی دیے تو انہیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ صوبر کے دیگر 40 درختوں کی طرح دنیا کا یہ سب سے اونچا اور سب سے پرانا درخت بھی انفیکشن میں مبتلا نہ ہو جائے۔ انہوں نے ’جنرل شرمن‘ کی صحت کے معائنے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم کو بلایا جو کیمروں اور دیگر آلات سے لیس تھی۔ یہ ٹیم رسیوں کی مدد سے درخت کی چوٹی تک گئی اور اس نے درخت کے تمام حصوں کا بغور معائنہ کیا۔ ٹیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’جنرل شرمن‘ مکمل طور پر صحت مند ہے اور اسے فی الحال بھونروں سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اس ٹیم کے قائد انتھنی ایمبروز، جو قبل از تاریخ جنگلات کی تنظم’انشنٹ فارسٹ سوسائٹی کے ڈائریکڑ ہیں، نے کہا کہ یہ درخت بہت صحت مند ہے اور بھونروں کے کسی بھی حملے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کہانی کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بھونرے اس نیشنل پارک کے لیے نئے نہیں ہیں۔ وہ نسل در نسل یہاں رہ رہے ہیں اور اتنے ہی پرانے ہیں جتنا کہ صوبر کے درخت۔ انتھنی ایمبروز کہتے ہیں کہ گرم ہوتی ہوئی آب و ہوا اور جنگلات کو لگنے والی آگ کے پے در پے واقعات نے درختوں کو اس قدر کمزور کردیا ہے کہ وہ اب بھونروں کے انفیکشن کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بوڑھے ہوتے ہوئے درختوں کی دیکھ بھال اور ان کی صحت کی نگرانی کی اب پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ چونکہ ماہرین کے لیے گاہے بگاہے ہر درخت پر چڑھ کر اس کا معائنہ کرنا بہت مشکل اور کھٹن کام ہے۔ نیشنل پارک کی انتظامیہ اس مقصد کے لیے ڈرونز اور سیٹلائٹس سے مدد لینے کا سوچ رہی ہے۔ ان ڈرونز پر خصوصی سینسرز نصب ہوں گے جن سے یہ پتا چل سکے گا کہ بھونروں کے انفیکشن کے اثرات کتنے گہرے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہے۔