خیبر پختونخوا میں ایک ساتھ روزہ ہونے پر لوگ کیا کہتے ہیں؟

جمعرات 23 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یکم رمضان کا دن  پشاور میں رہنے والی صنم بی بی کے لیے کافی مشکل ہوتا تھا۔ وہ اور ان کے شوہر مفتی شہاب الدین پوپلزئی  والی غیر سرکاری یا مقامی رویت ہلال کمیٹی کے مطابق روزہ رکھتی تھی، جبکہ سسر اور ساس سرکاری رویت ہلال کمیٹی کے مطابق روزہ رکھتے تھے۔

پہلے دن شوہر اور اپنے لیے سحری تیار کرتی اور پھر روزے کی حالت میں ساس، سسر کے لیے ناشتہ اور دن کا کھانا بناتی تھی۔

صنم کے شوہر سرکاری افسر ہیں۔ وہ گزشتہ بیس برسوں سے پشاور میں رہتے ہیں جبکہ بنیادی طور پر ان کا تعلق چترال ہے۔

“ہم چترال والے حکومت کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید مناتے ہیں، لیکن میرے شوہر پشاور میں رہنے کی وجہ سے یہاں کے ساتھ روزہ رکھتے اور عید مناتے ہیں،” صنم نے وی نیوز کو بتایا۔

“پتہ ہے اس سے ہمارے گھر کے خوشیاں ماند پڑ گئی تھیں، ہمارا روزہ ہوتا تھا لیکن باقی گھر والوں میں سے کسی کا نہیں ہوتا تھا، ہماری عید  ہوتی تھی لیکن باقی افراد خانہ کا روزہ ہوتا تھا۔”

وہ کہتی ہیں ’عید اور دیگر تہوار ایک ساتھ منانے ہی میں مزا ہے، الگ الگ منانے میں کیا مزہ! متعدد بار ایسا بھی ہوا کہ ہم نے مسجد قاسم علی خان کے ساتھ روزہ رکھا اور عید کے لیے چترال گئے اور ایک روزہ اضافی رکھنا پڑا۔

’اس بار میں اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ ایک ساتھ روزہ ہو گیا اور امید ہے کہ عید بھی ایک ساتھ ہی ہوگی‘

 شاہد احمد پشاور حاجی کیمپ کے رہائشی نے وی نیوز کو بتایا ’پورے خیبر پختونخوا میں بالعموم اور پشاور میں بالخصوص لوگ الگ الگ روزہ  رکھتے اور عید منانے پر دکھ کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کے لوگوں کا مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں صوبے سے ملنے والی شہادتوں کو نظرانداز کرنا بتایا جاتا ہے۔ ‘

تاہم اس بار رمضان المبارک ایک ساتھ شروع ہونے سے ہر کوئی خوشی ظاہر کر رہا ہے۔ مذہبی تہوار پورے ملک میں ایک ساتھ ہونا چاہیے، ہر سال  یکم رمضان کو ہم ایک’ دوسرے سے پوچھتے تھے کہ روزہ ہے یا نہیں؟ یا ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے کہ مفتی کے ساتھ روزہ رکھنا ہے یا حکومت کے ساتھ ؟ اس کے نتیجے میں ایک تقسیم نظر آتی تھی۔‘

انھوں کہا کہ ایسے ہونے سے ملک میں اتحاد اور اتفاق ہو گا اور غلط فہمیاں دور ہوں گی۔

پشاور کے سنئیر صحافی لحاظ علی کہتے ہیں ’یہ چند سالوں کا مسئلہ نہیں بلکہ تقسیم پاکستان سے پہلے سے یہ چلا آرہا ہے۔ انہوں نے چار مختلف وجوہات بتائیں جس کی وجہ سے الگ الگ روزہ اور عید منائی جاتی ہے۔’ہمارے لوگوں میں یہ بات عام ہے کہ پنچاب میں روزہ نہیں رکھا جاتا ہے اور روزہ جانے پٹھان جانے‘

انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان سے قریب ہونے کی وجہ سے بھی وہاں کا اثر یہاں زیادہ ہے، افغان مہاجرین کے آنے سے بھی اس روایت کو تقویت ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بار ایک ساتھ روزہ ہوا، بہت اچھا ہوا۔ اب عید بھی ایک ساتھ ہی ہونی چاہیے۔‘

’لیکن یہ بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک فروغی ایشو ہے، اسے معاشرتی مسئلہ نہ بنایا جائے۔‘ لحاظ علی نے کہا۔’الگ الگ روزہ یا عید منانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا‘۔

ظفر اقبال بھی سینئر صحافی ہیں، وہ ہر بار سرکاری رویت ہلال کمیٹی اجلاس کی کارروائی کی خبر دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے عام لوگ ہوں یا سرکاری کمیٹی کے ممبران ، ان میں ایک بات مشترک ہے، مرکزی کمیٹی ان کی بات کو اہمیت نہیں دیتی۔‘

وہ بتاتے ہیں ’ سال 2005 میں صوبے میں مذہبی جماعتوں کی حکومت تھی۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں ہوا۔ آٹھ بجے کے قریب مفتی منیب الرحمان نے چاند نظر نہ آنے کا اعلان کیا اور چلے گئے جبکہ اس وقت ممبران مولانا حسن جان (شہید) بیٹھے رہے اور انہیں کافی شہادتیں موصول ہوئیں۔‘

’ دس بجے کے بعد شہادتیں زیادہ ہو گئیں تو ممبران نے ہوٹل میں جا کر مفتی منیب الرحمن کو نیند سے بیدار کیا اور واپس لے کر آئے، انہیں چاند نظر آنے کے شہادتوں کی بابت آگاہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اب اعلان کردیں۔ مفتی منیب الرحمن پہلے سوچتے رہے، پھر کہنے لگے کہ میڈیا کے سامنے اعلان کروں گا اور سرکاری ٹی وی کا کیمرہ بھی ہو۔

“،مختصر یہ کہ انھوں نے بات شروع کی، حسب عادت طویل تمہید بندھی اور پھر اچانک کہنے لگے کہ چاند نظر نہیں آیا۔ اور پھرغصہ میں کہا کہ ہر ایک کی اپنی مرضی روزہ رکھنا ہے تو رکھو، چاند ماند کچھ نظر نہیں آیا۔‘ ظفر اقبال نے مزید بتایا کہ اس کے بعد بدنظمی ہو گئی اور مولانا حسن جان نے کمیٹی سے استعفیٰ  دے دیا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے سرکاری سطح پر روزے کا اعلان کیاتھا، وفاق نے نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد پھر عوامی نیشنل پارٹی کے دور حکومت میں بھی سرکاری سطح پر روزے اور عید کا اعلان کیا گیا۔

اس بار ایک ساتھ ماہ رمضان شروع ہونے پر انہوں نے کہا کہ بہت خوشی کی بات ہے، ہم تو رات کو ایک لمحہ کے لیے ڈر گئے تھے کہ اگر مفتی شہاب الدین پوپلزئی روزے کا اعلان نہ کرتے پھر کیا ہوتا۔

“بات سادہ ہے کہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔”

انھوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایک خیال ہے کہ لاہور، کراچی کے تاجر اور کاروباری افراد رویت ہلال کمیٹی پر اثر انداز ہوتے ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے معاملات کو حکومت صاف و شفاف کرے۔

چاند ، روزہ اور عید کا مسئلہ شاید جلدی ختم نہ ہو لیکن صنم بی بی خوش ہیں کہ پہلی بار گھر میں ایک ساتھ سب کا روزہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp