منفرد لب و لہجے کے مالک عالمی شہرت یافتہ اداکار طلعت حسین کراچی میں انتقال کر گئے، وہ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
طلعت حسین 18 ستمبر 1940 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اپنے مخصوص انداز و آواز سے شوبز کے قریباً تمام ہی شعبوں میں خود کو منواچکے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے بطور صداکار کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 1964 میں اداکاری کی دنیا میں قدم رکھنے کے چند برس بعد حصولِ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے تھے، جہاں لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ سے تربیت حاصل کی تھی۔
طلعت حسین 1972 سے1977 تک لندن میں مقیم رہے تھے۔ ڈراموں، اسٹیج شوز اور فلموں میں شاندار اداکاری کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹی وی کمرشلز میں بھی اپنی دبنگ آواز کا جادو جگایا تھا۔ اس دوران متعدّد ڈراموں اور فلموں میں ڈائریکشن کے ساتھ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا) اور دیگر جامعات میں درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا تھا۔
ڈرامہ نگاری کے شیکسپئر کہلانے والے طلعت حسین نے لندن چینل 4 کی مشہور زمانہ سیریز ٹریفک میں لاجواب اداکاری کی تھی۔ بالی وڈ فلم ’سوتن کی بیٹی‘ میں جیتندر اور ریکھا کے مدمقابل ان کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا تھا۔ ٹی وی ڈراموں میں ارجمند، اِک نئے موڑ پہ، دی کیسل، ایک امید، ٹائپسٹ، رابطہ، نائٹ کانسٹیبل، درد کا شجر، بندش، دیس پردیس، فنونِ لطیفہ، ہوائیں، عید کا جوڑا، کشکول، تھوڑی خوشی تھوڑا غم، دیس پردیس، آنسو، طارق بن زیاد، پرچھائیاں اور دیگر کئی مقبول، یادگار ڈرامے شامل ہیں۔
ان کی فلموں میں چراغ جلتا رہا، جناح، ایکسپورٹ امپورٹ (نارویجن فلم)، لاج، قربانی، سوتن کی بیٹی (بھارتی فلم)، اشارہ، آشنا، بندگی، محبت مر نہیں سکتی، انسان اور آدمی، گم نام، چُھپن چُھپائی اور پراجیکٹ غازی وغیرہ شامل ہیں۔ شاندار اداکاری پر انہیں صدارتی ایوارڈ سمیت متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔
تھیٹر، ریڈیو، ٹی وی اور فلم کی دنیا میں بے شمار خدمات سے لوہا منوانے والے نامور اداکار طلعت حسین طویل عرصے سے پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے۔ ان کی اہلیہ رخشندہ طلعت کا کہنا تھا کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے بہت کم زور ہوگئے تھے اور ان میں پانی بھرنے کی وجہ سے سانس لینے میں بہت تکلیف تھی۔ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے چلنے پھرنے اور خود کھانے پینے سے بھی قاصر تھے اور ان کی یادداشت بھی انتہائی کمزور ہوگئی تھی۔