ہدایتکار اور سیاسی اداکار

پیر 27 مئی 2024
author image

احمد ولید

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان کا سیاسی تھیٹر بھی عجیب ہے جہاں فنکار ہر قسم کا رول ادا کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ انہیں کوئی اعتراض نہیں، بس جیسا رول ملے گا وہ ہدایتکار کی منشا کے عین مطابق اس رول سے انصاف کریں گے۔ ہدایتکار جب چاہے ایک ولن کو ہیرو بنا دے اور پھر ہیرو کو ولن۔ سیاسی اداکار ایک لمحے میں عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی تعریفیں کرتے نظر آئیں گے، اگلے سین میں وہ لعن طعن کررہے ہوں گے۔ ہدایتکار بدلتے ہی پوری کاسٹ تبدیل ہوجائے گی اور یہ کھیل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

10 مرتبہ پرویز مشرف کو باوردی صدر چن کر قبول کرنے والے سیاسی رہنما سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی فوج کے بیانیے سے ہٹ کر عمران خان کے کیمپ میں شامل ہوئے اور پھر جیل کی ہوا کھانا قبول کرلی۔ اب ان کی رہائی کو کسی ڈیل کا نتیجہ سمجھا جارہا ہے اور دوسری طرف اسے مشکوک نظروں سے بھی دیکھا جارہا ہے کہ کہیں وہ اسٹیبلشمنٹ سے کوئی ڈیل تو نہیں کرکے جیل سے رہا ہوئے۔

پرویز الٰہی اور شیخ رشید جیسے بعض سیاستدان جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے ہونے پر فخر کرتے تھے آج مشکل کا شکار ہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ ہمیشہ حکم کے تابع رہنے والے آج عمران خان کے بیانیے سے پیچھے ہٹنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر بڑے سے بڑا جھوٹ بولا اور فوج کو تنقید بنانے والوں کو ملک کا دشمن اور غدار قرار دیا۔ اقتدار ہاتھ سے جاتے ہی اسٹیبلشمنٹ کو برا بھلا کہنے میں تمام حدیں پار کردیں۔ اندر سے وہ آج بھی چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی بات کروا دے مگر شاید فی الوقت وہ ناپسندیدہ ترین سیاسی شخصیت بن چکے ہیں۔

عمران خان نے اپنے چاہنے والوں کو جو بھی بیانیہ دیا وہ انتہاپسندانہ تھا۔ یعنی تمام بڑے سیاسی رہنما چور، ڈاکو اور غدار جبکہ فوج ملک کی محافظ، وفادار، اصول پسند اور اس وقت کے آرمی چیف تاریخ کے سب سے بڑے جنرل۔ ان کے کارکنوں اور حمایتیوں نے عمران خان کی ہر بات کو سچ مانا اور سیاسی مخالفین کا جینا حرام کردیا۔ آئے روز تحریک انصاف کے رہنما فوج پر تنقید کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے خلاف زہر اگلنے بیٹھ جاتے۔ پھر جب کایا پلٹی تو سب الٹا شروع، فوج کو سب برائیوں کی جڑ قرار دے دیا اور ملک کو چوروں کے حوالے کرنے کے الزامات لگانا شروع کردیے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سمیت تمام ایسے جج جو تحریک انصاف کے مخالفین کو عدالتوں کے ذریعے عمران خان کے راستے سے ہٹانے میں مصروف تھے وہ ایماندار اور شوکت عزیز صدیقی یا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے جج بے ایمان اور کرپٹ کرپٹ ٹھہرے۔

اس وقت مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی عدلیہ میں مداخلت کا شور مچا رہی تھی اور ایسے ججوں کی حمایت میں کھڑی تھی۔ آج منظرنامہ تبدیل ہوتے ہی حکمران جماعتیں عدلیہ میں مداخٓلت کا الزام عائد کرنے والے ججوں پر تنقید میں مصروف ہیں۔ روز ایک رہنما میڈیا کے سامنے بیٹھ کر ججوں کو لیکچر دیتا ہے کہ عدلیہ کے کاموں میں ایجنسیوں کی مداخلت جیسے الزامات نہیں لگانے چاہیئیں۔

مسلم لیگ نواز کی حکومت عجیب کشمکش کا شکار ہے۔ نواز شریف اور ان کی پوری جماعت کچھ عرصہ قبل تک عدلیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی اور اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں کی زیادہ تر ذمہ داری عدلیہ پر ڈالتی رہی۔ آج جج شکایت کررہے ہیں تو سرکار کو ایجنسیوں کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں کسی قسم کی مداخلت نہیں کررہیں۔ یعنی جن ججوں نے شکایت کی ہے وہ جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں؟

ادھر تحریک انصاف عدلیہ میں مداخلت کے خلاف کھڑے ہونے والے ججوں کی مکمل حمایت کررہی ہے۔ ملک کی سیاست ایک طویل عرصے سے اسی گول چکر میں گھوم رہی ہے، جسے اقتدار مل جاتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کا حامی بن جاتا ہے اور ماضی میں حامی رہنے والی جماعت کا لیڈر مخالفت شروع کردیتا ہے۔ حقیقت سب جماعتیں جانتی ہیں مگر اقتدار کی کرسی اتنی عزیز ہے کہ آج فوج کے مخالف تو کل اس کی حمایت میں کھڑے ہوجائیں گے۔ سب جانتے ہیں کہ اسی سیاسی کشمکش نے ملک کو معاشی تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے مگر مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کے لیے کوئی راضی نہیں، ہر دور میں کوئی نہ کوئی سیاسی اداکار اپنی سیاست چمکانے کے لیے جمہوری حکومت گرانے کے لیے منصوبہ سازوں کی سازش کا حصہ بن جاتا ہے اور پھر ہدایتکار کا متعین کردہ ہر قسم کا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو خوشی خوشی پیش کردیتا ہے۔

حال ہی میں راناثنااللہ نے اس کی درست عکاسی کی ہے کہ اگر تحریک انصاف کو مینڈیٹ واپس کردیں اور سب کچھ اس کے حوالے کردیں تو عمران خان انہیں جیلوں میں ڈال دے گا۔ اس ڈر سے ان کی جماعت تحریک انصاف کے خلاف ہونے والے ہر جائز ناجائز کیسوں کی حمایت کررہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp