دنیا بھر میں سیاستدانوں پر انڈے، جوتے اور تھپڑ والے حملے ہوتے رہے ہیں۔ طاقتور ترین سمجھے جانے والے امریکی صدر (جارج بش) اور سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن پر بھی جوتا پھینکا گیا۔ آسٹریلوی وزیراعظم سکاٹ موریسن کو انڈہ مارا گیا۔ تائیوان کے صدر ماینگ کو کئی بار جوتوں کے وار سہنا پڑے۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد پر جوتے سے حملہ کیا گیا۔ سابق چینی صدر وین جیا باؤ بھی جوتے کا نشانہ بنے۔ نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو تو ایک شخص نے تھپڑ ہی جَڑ دیا تھا۔
اگرچہ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حُسن ہیں لیکن وطنِ عزیز میں یہ حُسن گہنا چکا ہے۔ ملی سیاست میں 2018 کا مارچ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس کے پاس ہیٹرک کا ریکارڈ ہے۔ 10 مارچ 2018 کو سیالکوٹ میں وزیرخارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ سیاہی پھینکنے والے شخص کا کہنا تھا میرا نام فیض رسول ہے اور میرا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ ختم نبوتﷺ کے قانون میں ترمیم پر یہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھنے کے قابل نہیں۔
اگلے ہی روز 11 مارچ 2018 کو سابق وزیراعظم نوازشریف کو جامعہ نعیمیہ لاہور میں دوران خطاب جوتا مارا گیا۔ حملہ آور نے ختم نبوتﷺ کے قانون میں تبدیلی کا الزام مسلم لیگ ن کی حکومت پر لگایا تھا۔
13 مارچ 2018 کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گجرات میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ کسی نے جوتا اچھال دیا جو ان کے برابر میں کھڑے علیم خان کے سینے پر جا لگا تھا۔ جب یہ واقعہ پیش آیا عمران خان اور علیم خان گاڑی کی چھت پر کھڑے تھے۔ جیسے ہی علیم خان کو جوتا لگا تو سیکیورٹی اہلکار علیم خان کے سامنے آ گیا تھا (پہلے خدا جانے اس کا دھیان کدھر تھا) ۔
تین روز بعد 16 مارچ 2018 کو تحریک انصاف کی منحرف رکن اسمبلی عائشہ گلالئی پر پی ٹی آئی ورکرز نے بہاولپور میں انڈوں اور ٹماٹروں سے حملہ کیا اور ’گو عائشہ گو‘ کے نعرے بھی لگائے تھے۔ عائشہ گلالئی نے الزام لگایا تھا کہ انڈے پھینکنے والوں کو کسی نے بھٹکایا ہے، جوتے اور سیاہی کی سیاست عوامی ردعمل اور انقلاب کی نشانی ہے۔
7 مئی 2018 کو سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر نارووال میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور عابد حسین نے اپنا تعلق تحریک لبیک سے بتایا تاہم تحریک نے حملہ آور سے اعلانِ لاتعلقی کیا تھا۔ احسن اقبال پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ اپنے حلقے میں مسیحی برادری کی کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔ گولی دائیں بازو پر لگی جو کہنی کی ہڈی توڑتی ہوئی ان کے پیٹ میں پیوست ہوگئی تھی۔
2011 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر لندن میں ایک تقریب کے دوران جوتا پھینکا گیا تھا۔ پرویزمشرف اپنے حامیوں کی تقریب سے ’خطاب آور‘تھے، جب حملہ آور کا جوتا انہیں نہ لگ سکا تاہم سیکیورٹی اہلکار حملہ آور کو جا لگے یعنی حراست میں لے لیا گیا تھا۔ 2013 میں سندھ ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر بھی ایک وکیل نے پرویز مشرف کی جانب جوتا پھینکا تھا، جسے سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی ’تحویل‘میں لے لیا تھا۔
24 اپریل 2014کو لاہور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ جنوبی ایشیائی مزدور کانفرنس کے افتتاح پر سندھی ٹی وی چینل ’آواز‘کے صحافی امداد علی نے جوتا پھینکا لیکن شہباز شریف محفوظ رہے۔ صحافی نے ان دنوں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صحافی حامد میر کے حق میں ’حامد میر کے قاتلوں کو گرفتار کرو‘۔ ’جاگ صحافی جاگ‘اور ’زندہ ہے صحافی زندہ ہے‘جیسے روایتی نعرے بھی لگائے تھے۔
6 مارچ 2021 کو ن لیگی رہنما مریم اورنگزیب ڈی چوک میں پریس کانفرنس کر رہی تھیں کہ پی ٹی آئی ورکرز نے وہاں ہلڑبازی اور بدتمیزی کی، مریم اورنگزیب کو دھکے دیے گئے۔ یہی نہیں احسن اقبال پر جوتے سے حملہ کیا گیا جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کو بھی زدوکوب کیا گیا تھا۔
15 مارچ 2021 کو لاہور میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل پر ن لیگی کارکنوں نے گندے انڈے پھینکے اور سیاہی سے ان کا منہ کالا کردیا تھا۔ شہباز گل نے کہا تھا کہ ان پر سیاہی پھینکنے والوں نے اپنے کالے کرتوتوں کی سیاہی پھینکی ہے۔
26 ستمبر 2022 کو وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب لندن میں ایک کافی شاپ میں رکی تھیں کہ پی ٹی آئی کارکنان نے ان کے ساتھ نامناسب رویہ اپنایا، ان پر فقرے کسے گئے اور دشنام طرازی کی گئی۔ معاون خصوصی عطا تارڑ نے کہا تھا کہ مریم اورنگزیب نے بڑے حوصلے کے ساتھ یوتھیوں کی بدتمیزی برداشت کی اگر وہ اس جگہ ہوتے تو موقع پر جواب دیتے، اگر آئندہ ایسا ہوا تو پتھر کا جواب اینٹ سے دیں گے۔
24 ستمبر 2007 کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں محمد خورشید ایڈووکیٹ نے سینئر وکیل احمد رضا قصوری کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کردیا تھا۔ خورشید ایڈووکیٹ کو احمد رضا قصوری کا ایک جملہ بہت ناگوار گزرا تھا کہ ’انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو کیفر کردار تک پہنچایا تھا تو یہ وکلا کیا چیز ہیں‘۔
14 نومبر 2007 میں اسلامی جمعیت کے طلبہ نے جامعہ پنجاب میں عمران خان سے انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔ جب عمران خان فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد طلبہ احتجاج میں شرکت کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچے تھے۔ عمران خان پر تشدد کیاگیا، گھسیٹا گیا اور پھر پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔ (یہ عمران خان کی پہلی سیاسی گرفتاری تھی)
8 اپریل 2008 کو سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی خاتون ورکر نے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے چہرے پر انتہائی قریب سے جوتا ’جڑ‘ دیا تھا۔ ٹی وی اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا تھا کہ ارباب غلام رحیم کو مارا گیا جوتا 9 لاکھ روپے میں خریدا گیا جبکہ جوتا مارنے والی کو بھی 6 لاکھ روپے نقد دیے گئے تھے۔
8 اپریل 2008 کو ہی سابق وزیر قانون و پارلیمانی امور شیر افگن خان نیازی کے ساتھ لاہور میں وکلا نے بدسلوکی کی تھی۔ ان کے سر پر جوتا مارا گیا، گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور 4 گھنٹے تک محبوس رکھا گیا تھا۔
15 مارچ 2021 کو شہباز گل کے ساتھ لاہور میں پیش آئے افسوسناک واقعہ کے بعد سوشل میڈیا اور ٹوئٹر پر دلچسپ و عجیب تبصرے کیے گئے تھے۔ اکثر ناقابل اشاعت تھے تاہم سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر فواد چودھری کا کہنا تھا ’شہباز گل پر سیاہی پھینکنے کا واقعہ مذمت سے آگے کا ہے‘ تاہم انہوں نے آج تک واضح نہیں کیا کہ مذمت سے آگے کیا ہے؟
مزید پڑھیں
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ شہباز گل پر انڈے اور سیاہی پھینکے جانے کا واقعہ ان کے اپنے ہی ٹویٹ کا شاخسانہ ہے۔ 6 مارچ 2015 کو مریم اورنگزیب اور دیگر لیگی رہنماؤں پر اسلام آباد میں پی ٹی آئی ورکرز کے حملے کے بعد شہباز گل نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’ڈی چوک میں آنے والے ورکرز سے ملاقات کی، انہیں وزیر اعظم کا پیغام پہنچایا اوران کا شکریہ ادا کیا۔ ہمارا ورکر ہی اصل میں ہماری طاقت ہے‘۔
3 نومبر 2022 کو گوجرانوالہ کے علاقے وزیرآباد میں لانگ مارچ کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے کنٹینر پر فائرنگ کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں ایک کارکن جاں بحق جبکہ عمران خان اور فیصل جاوید سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق عمران خان کی ٹانگ میں 2 گولیاں لگی تھیں۔ گرفتار ملزم کا کہنا تھا کہ عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
21 مئی 2024 کو ستارہ مارکیٹ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن پر خواجہ سراؤں نے تیز دھار بلیڈ سے حملہ کیا اور موقع سے فرار ہوگئے۔ رؤف حسن کا چہرہ شدید زخمی ہوا جس پر انہیں طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔
رؤف حسن پر حملہ کوئی انہونی بات نہیں کہ یہاں تو سیاستدانوں کی جان تک لی جاچکی ہے۔ لیکن سیاسی دنگل میں خواجہ سراؤں کی انٹری نے انتہائی مضحکہ خیز صورتحال پیدا کردی ہے، بقول رانا ثنااللہ اگر بات خواجہ سراؤں تک آ گئی ہے تو پھر صُلح کرلینی چاہیے۔
’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘ والے نثار ناسک نے کبھی ایک خوبصورت شعر کہا تھا۔ ان سے معذرت کے ساتھ اب کہا جا سکتا ہے کہ:
میں سازشوں میں گھِرا اک یتیم ’سیاستداں‘
یہیں کہیں کوئی ’کھُسرا‘ مری تلاش میں ہے