امریکی جنرل، پی ٹی آئی اور سیاسی حمایت

جمعہ 24 مارچ 2023
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم مصروف ہیں اور صوبائی انتخابات کے لیے فورس فراہم نہیں کرسکتے، وزارتِ دفاع نے الیکشن کمیشن کو جب صورتحال سے آگاہ کیا تو امن و امان کی صورتحال اور دہشتگردوں کے خلاف جاری آپریشن کو بھی معذرت کی ایک وجہ بتایا۔

12 مارچ کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ وہ سیاسی اجتماعات، انتخابی ریلیوں اور پولنگ اسٹیشن پر حملوں کا ارادہ نہیں رکھتی۔

ایک شدت پسند تنظیم ایک سیاسی جماعت اور اس کے سیاسی مؤقف کی حمایت میں بڑے طریقے سے آگے آئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جس حساب سے بیانیہ بدلتی اور بناتی ہے، کچھ بھی اچھا ہو یا بُرا اسے اپنے حق میں استعمال کرنا پی ٹی آئی پر ختم ہے۔ ٹی ٹی پی نے بھی اپنا یہ بیان جاری کرتے ہوئے اسی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی سیاسی قیادت اتنی بزرگ ہے کہ وہ ہلنے جلنے میں ہی اتنا وقت لگا دیتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو ہونا ہوتا ہے وہ ہوچکا ہوتا ہے۔

17 مارچ کو سینٹ کام کے کمانڈر جنرل مائیکل کوریلا نے امریکی قانون سازوں کو آگاہ کیا کہ داعش خراسان اگلے 6 مہینے میں مغربی مفادات کو افغانستان سے باہر ہدف بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ وہ امریکا کے اندر کارروائی نہیں کرسکیں گے لیکن ایشیا اور یورپ میں کارروائی کی صلاحیت حاصل کرلیں گے۔

سینٹ کام کمانڈر کی اس بات سے آپ نے گھبرانا بالکل نہیں ہے۔ افغانستان سے انخلا کے فوری بعد بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار 6 ماہ کی ایسی ہی ڈیڈ لائن انہی خدشات کے ساتھ دے چکے ہیں۔ اگر اُس وقت کچھ نہیں ہوا تو اب بھی نہیں ہوگا۔

جنرل کوریلا کا یہ تازہ بیان آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدت پسند سرکل میں داعش خراسان کے فاؤنڈنگ ممبر عبدالرحیم مسلم دوست کا ایک انٹرویو گردش کرنے لگا۔ اس انٹرویو میں وہ اس گروپ کے قیام میں ہمارے جذباتی لوگوں کو ہماری نمبر ون خدمات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں۔ سیدھا سیدھا یہ امریکیوں کا ہم پر دھیان ڈلوانے کی ایک کوشش کی گئی تھی۔ یہ بتا کر کہ ’جہاں مامتا وہاں ڈالڈا‘ کے اصول کے مطابق ہر الٹے کام کا کھرا ہم تک آتا ہے۔

یہ 2 مثالیں آپ کو اس لیے بتائی گئی ہیں کہ معلومات کے اس عہد میں اپنے حلقہ اثر کو جوڑے رکھنے کے لیے کیسے فوری سرگرم ہوا جاتا ہے۔ اگر آپ ان دونوں مثالوں پر حیران ہو رہے ہیں تو پریشان ہونے کے لیے یہ سوچیں کہ کہیں کوئی ایسا سرکاری یا غیر سرکاری ادارہ یا فرد ہے جو اتنی ہی تیزی سے کاؤنٹر کرنے کے مؤثر طریقے سے سرگرم ہوتا ہے؟ سوچتے رہیں کوئی جواب ذہن میں نہیں آئے گا۔

اب واپس آتے ہیں سیاسی صورتحال کی جانب۔ سینٹ کام کمانڈر کا بیان آپ نے پڑھا۔ سیاسی اجتماعات کو ہدف نہ بنانے سے متعلق بیان بھی پڑھا۔ ایک بات یہاں نوٹ کرلیں کہ سینٹ کام چیف شدت پسندی اور دہشتگردی پر کیسے تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ دونوں جگہ جوابی بیانیہ بناتے ہوئے ہماری وزارتِ دفاع اور پرائم ایجنسی کو ٹارگٹ کردیا گیا۔

آپ نے سینٹ کام کمانڈر کا بیان اور تشویش تو سنی؟ اب ذرا کپتان کے شدت پسندی پر حالیہ بیانات یاد کریں۔ جو مذاکرات ختم ہوئے ان کے بارے میں بیانات، افغانستان سے امریکی روانگی پر غلامی کی زنجیریں توڑنے والا بیان، ہم دیکھیں گے کہ شدت پسندی سے متعلق ہر معاملے پر کپتان اپنے ملکی اداروں کے خلاف اور شدت پسندوں کے نزدیک کھڑا پایا جاتا ہے۔ یہ پوزیشن امریکا اور یورپ کے بھی بالکل الٹ ہے اور اس کی واپسی میں یہ دونوں باتیں رکاوٹ ہیں۔

ٹی ٹی پی دونوں بار ایک طرح سے پی ٹی آئی مخالفین کو ہی فوری جواب دیتی دکھائی دی۔ انتخابات پر تو واضح طور پر پی ٹی آئی کی مدد محسوس ہوتی ہے۔

شدت پسندی کی لہر جب ہمارے خطے میں آئی، یہ روس افغان جنگ کا زمانہ تھا، تب جو فائٹ فورس تیار کی گئی انہیں صرف افغانستان میں ایک سیٹ اپ نہیں گرانا تھا بلکہ روس جیسی بڑی طاقت کا تیاپانچہ بھی کرنا تھا۔ منصوبہ بندی بھی اسی حساب سے کی گئی تھی۔

ایک حکومت اور ایک نظام کو کیسے زمین بوس کیا جاتا ہے؟ اس کے لیے پہلے انتظامی اداروں کو غیر مؤثر کیا جاتا ہے۔ پولیس اور عدالت کو بے بس کیا جاتا ہے۔ تاجر تنظیموں کو نیچے لگایا جاتا ہے۔ پھر سیدھا آخری دفاعی لائن یعنی فوج کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اس دوران انفارمیشن ٹولز کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلے آڈیو ویڈیو کیسٹ ہوتی تھیں اب سوشل میڈیا ہے۔ اسٹریٹجسٹ اسکیم بناتے ہیں اور پھیلانے کے لیے کسی بھی جماعت یا گروپ کے ماننے والے کام آتے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی اپنی طرف سے پرانی سیاست کی سلطنت ہی گرانے نکلی تھی یا نکالی گئی تھی۔

پولیس، عدالت اور میڈیا کا جو حشر پی ٹی آئی نے کیا ہے، جس انہماک سے کپتان کے مداح سابق اور موجودہ مائی گارڈ کی طرف سیدھے ہوچکے ہیں، جیسے مائی لارڈ لاتعلق یا مددگار دکھائی دے رہے ہیں۔ اس انداز کی شدت پسند تنظیموں کے طریقہ کار سے بہت زیادہ مماثلت ہے۔

یہ سب پڑھتے آپ یہاں تک آگئے ہیں، بہت سنجیدہ بھی ہوچکے ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے خلاف پابندی کا کوئی کیس تیار کرنے کا ماحول بھی آپ کو بنتا لگ رہا ہوگا۔ لیکن ایسا ہے اس لیے زیادہ سنجیدہ نہ ہوں یہ سیاسی جماعت ہی ہے، جس کی سیاسی عمر بہت کم اور سیاسی تجربہ اس سے بھی کم ہے۔

جب اداروں کو سیاسی حمایت فراہم کی گئی تب امن و امان تہس نہس کرنے والے شدت پسند تتر بتر ہوگئے تھے۔ آپریشن کے علاوہ جو سب سے مؤثر اقدام رہا تھا وہ مالی معاملات کو اچھا سمجھنے والے سیاسی ذہن تھے۔ پہلے پیپلز پارٹی نے پھر مسلم لیگ (ن) نے دہشتگردوں کی مالی مدد کے ذرائع مسدود کردیے تھے۔ اب یہاں سے آپ نے ہنسنا نہیں ہے پی ٹی آئی اپنی ساری سیاسی شرارتوں کے ساتھ پارٹی فنڈنگ کیس میں دونوں ٹانگوں سمیت بندھی پڑی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp