بھارتی پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو جوان رَیپر، سنگر سدھو موسے والا کی جوان موت کا پاک وہند کی تاریخ میں جس طرح سرحد کی دونوں طرف سوگ منایا گیا ہے۔ حالیہ تاریخ میں اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔
یو ٹیوب پر ایک مختصر ویڈیو دیکھی جاسکتی ہے جس میں پاک بھارت سرحد کے کسی پہاڑی مقام پر ایک فوجی چوکی میں سدھو موسے والا اور امریت سنگھ کے گائے ہوئے “بمبھیہا بولے” گیت پر دو بھارتی فوجی بھنگڑا ڈال رہے ہیں جب کہ تھوڑے فاصلے پر ایک فوجی چوکی پر پاکستانی پرچم لہراتا نظر آرہا ہے۔ بھارتی مورچے سے گانے اور بھنگڑے کے جواب میں پاکستانی جوان بھی اپنی چوکی پر کھڑے ٹوپی ہاتھ میں پکڑے اُسے لہراتے ہوئے ردِعمل دے رہے ہیں۔
سدھو اپنی زندگی میں بھی مشہور تھامگر اس کی موت نے اُسے چہار دانگِ عالم میں ایک لازوال کردار کی شکل دے دی۔
سدھو موسے والا 17 جون 1993 کو بھارتی پنجاب کے ضلع مانسا کے گاؤں موسیٰ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کانام بال کور جب کہ والدہ کا نام چرن کور ہے۔
سدھو کا اصل نام شُبھ دیپ سنگھ سدھو تھا۔ سدھو پنجابی جاٹوں کی ایک شاخ ہے۔ بھارتی بلے باز، سیاست دان اور ٹی وی انٹر ٹینر نوجوت سنگھ سدھو بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں جٹوں کی یہ ذات آبادی میں بہت زیادہ نہیں۔ پاک فضائیہ کے موجودہ سربراہ ائر مارشل ظہیر الدین بابر بھی سدھو ہی ہیں۔
سدھو موسے والا نے گرو نانک دیو انجینئرنگ کالج لدھیانہ سے 2016 میں گریجوایشن کی اور بعد ازاں کینیڈا سے ایک سال کا ڈپلومہ بھی کیا۔
کالج کے دور سے ہی وہ گاتے تھے لہذا انجنیئرنگ کی بجائے گانا ہی ان کا کیرئیر بن گیا۔ ان کی زندگی میں ہی کروڑوں لوگ ان کو سوشل میڈیا پر فالو کررہے تھے۔
دنیا بھر میں انھوں نے شو ز کیے۔ بھارت میں وہ اپنے ایک شو کی فیس 18 لاکھ بھارتی روپے لیتے تھے۔ یو ٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے جس میں ان کے والد تقریر کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ ان کے بیٹے نے ایک سال میں 24 کروڑ ٹیکس دیا تھا۔ بھارت میں حالیہ لوک سبھا چناؤ میں ان کے والد کانگریس کی طرف سے حصہ لے رہے ہیں۔ جب کہ سدھو نے 3 دسمبر 2021 ءکو پنجاب کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو اور وزیر اعلیٰ چرن جیت سنگھ چنی کی موجودگی میں گانگریس میں شمولیت اختیار کی۔ 2022ء میں ہونے والے ریاستی چناؤ میں انھوں نے کا نگریس کی ٹکٹ مانسا حلقہ سے الیکشن لڑا مگر وہ عام آدمی پارٹی کے وجے سنگلا سے الیکشن ہار گئے۔
اپریل 2022ءمیں ان کی شادی کینیڈین امن دیپ کور سے طے تھی مگر الیکشن کی وجہ سے نومبر 2022ء تک ملتوی کردی گئی۔ 29 مئی کو وہ اپنے کسی رشتے دار کی طرف برنالہ جا رہے تھے مگر جواہر گاؤں کے قریب ان کی مہندرا جیپ کو دو گاڑیوں نے روکا اور ان پر فائرنگ کر دی گی۔ ان کے دو ساتھی بھی زخمی ہوئے۔ اس موقع پر 30 گولیاں فائر ہوئیں۔ سدھو نے بھی جوابی فائرنگ کی مگر حملہ آور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ سدھو کو زخمی حالت میں مانسا شہر کے ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے۔ بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتا چلا کہ سدھو کو 19 گولیاں لگی تھیں۔
لارنس بشنوئی گینگ کے گولڈی برار نے اپنے فیس بُک پیج پر اگلے دن سدھو کے قتل کی ذمہ داری قبول کی۔ گولڈی برار کینیڈا میں رہتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس کی امریکہ میں موت کی خبر پھیلی تھی مگر اس خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
گو کہ لارنس بشنوئی گینگ نے سدھو کے قتل میں اپنے کردار سے لا تعلقی کا اظہار کیا مگر پنجاب پولیس بشنوئی گینگ کو ہی سدھو کے قتل کا ماسٹر مائنڈ خیال کرتی ہے۔
پولیس کے مطابق ایک اکالی لیڈر کے قتل کے بدلے میں بشنوئی گینگ نےسدھو کے قتل کی وار دات کی۔
سدھو موسے والا اپنے آپ کو ہندوستانی کی بجائے خالصتانی کہلوانا پسند کرتے تھے۔ اپنے گانو ں میں بھی بڑی بڑی گاڑیاں اور اسلحہ کی نمائش کرتے تھے۔ عملی زندگی اور اپنی ویڈیوز میں اسلحے کی نمائش کرنے پر انھیں مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اپنے انٹرویوز میں سدھو کہتے تھے کہ اسلحہ میرے پاس لائسینسی ہے اور اپنی حفاظت کے لئے رکھتا ہوں نہ کہ کسی کا نقصان کرنے کے لیے۔ ویڈیوز میں اسلحے کی نمائش کے حوالے سے وہ جواب دیتے تھے کہ لوگ میری ایسی ویڈیوز کو پسند کرتے ہیں۔
یو ٹیوب پر ان کی ویڈیوز کو کروڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ ان کےمشہور گانوں میں سیلف میڈ، سو ہائی، ٹوچن، ڈیتھ، اسا جٹ، سکیپ گوٹ، ٹبیاں والا پنڈ، گاڈ فادر جیسے کئی گانے شامل ہیں۔ سدھو کے گانوں میں ظُلم اور جبر کے خلاف ایک للکار، گیت کے بولوں میں بغاوت اور ایک چیلنج کا عُنصر پایا جاتا ہے۔ اُن کو اسلحے، بڑی گاڑیوں او ر ہیوی موٹر بائیکس کا شوق تھا۔ سدھو کے پاس بُلٹ پروف گاڑی بھی تھی مگر اپنے قتل کے روز وہ یہ گاڑی لے کر نہیں گئے۔
گرو نانک دیو، یونیورسٹی میں اردو اور انگریزی کے پروفیسر اریندر سنگھ جو خود بھی سُدھ موسیقی کا شوق رکھتے ہیں اور برِ صغیر کے ادب، موسیقی اور پنجاب کے کلچر پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں سدھو موسے والا جیسے کردار کو نوجوان آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ دراصل سدھو کی شکل میں ان کو اپنا آپ نظر آتا۔ اسلحہ کی نمائش اور گینگسٹر رویے کو بھی پسند کیا جاتا ہے۔ لارنس بشنوئی جیسےکئی گینگ ہمارے ہاں مشہور ہیں۔ بشنوئی راجستھان کا رہنے والا ہے اور برسوں سے جیل کاٹ رہاہے۔ وہیں بیٹھا گینگ چلا رہا ہے۔ بالی ووڈ، ادا کار سلمان خان کو کالے ہرن کے شکار پر اس گینگ نے دھمکیاں بھی دیں اور کچھ عرصہ پہلے ان کے گھر پر فائرنگ کی ذمہ داری بھی قبول کی۔ راجستھان میں کالے ہرن کو مقدس سمجھا جا تا ہے۔
پنجاب میں یہ رواج بن چُکا ہے لڑکے سدھو کی طرح گا نا گا کر اور مہنگی ویڈیو بنا کر مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ خواہ اس کے لئے کچھ ایکڑ آبائی زمین ہی کیوں نہ بیچنی پڑھ جائے۔
سدھو سے پہلے بھی پنجاب میں گورداس مان، امر سنگھ چمکیلا، ہنس راج ہنس،ہر بھجن سنگھ، دلیر مہدی، ببو مان جیسے اور بہت سے لوک فن کار اُبھرے مگر جیسے اب ریپ گانے کا رواج ہے پہلے ایسا نہیں تھا۔
جس طرح سدھو کے قتل کا سوگ منایا گیا ہے، اسی طرح مشرقی پنجاب میں نصرت فتح علی خاں صاحب کی موت کا دکھ محسوس کیا گیا۔ لوگ ان کی وفات پر دھاڑیں ما ر مار کر روتے رہے۔ آج بھی کسی گاؤں محلے سے گزرتے ہوئے کسی گھر سے نصرت صاحب کی رس گھولتی ہوئی آواز کانوں میں پڑ جاتی ہے۔
طفیل نیازی، شوکت علی، استاد سلامت علی خاں، حُسین بخش گُلو جیسے گانے والے ہمارے نہیں۔ لہذا یہاں چلنّت یا کمرشل گانے کا رواج زیادہ ہے۔
سدھو موسے والا بھی ایسا ہی گانے والے تھے۔ سدھو موسے والا کی موت کا جب میڈیا میں بہت شور سُنا تو ان کی وفات کے دو دن بعد یو ٹیوب پر جا کر جانا کہ سدھو موسے والا کتنا مشہور فن کار تھا۔
پروفیسر اریندر سنگھ کی بات درست ہے جو لوگ سدھو کی زندگی میں اُسے نہیں جانتے تھے وہ اُسے اُس کی موت کے بعد جان گئے۔ پاکستان میں کئی گاڑیوں پر سدھو کی تصویر بنی ہوئی یا نام لکھا ہوا دیکھا گیا۔ کئی جگہ اس کے نام کے پینا فلیکس او ر بورڈ بھی لگے ہوئے نظر آئے۔ آج سدھو اُس وقت سے کئی گُنا زیادہ مقبول ہے جتنا وہ اپنی زندگی میں تھا۔
رواں برس 17 مارچ کو جب سدھو کی ماں چرن کور نے آئی وی ایف ٹیکنالوجی کی مدد سے سدھو کے چھوٹے بھائی شُبھ دیپ سنگھ کو جنم دیا تو پاک بھارت کے میڈیا پر دھوم مچ گئی۔ لوگوں نے یوں خوشی محسوس کی جیسے اپنے ہاں اولادِ نرینہ کا جنم ہوا ہو۔
سدھو موسے والا اپنی 28 سالہ زندگی میں کئی زندگیاں جیا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بہادروں کی طرح جیا او ر دلیروں کی طرح موت کو گلے لگایا۔ سرحد کے دونوں طرف لوگوں نے سدھو کو اپنا جان کے اس کی خوشی اور غمی کو محسوس کیا۔
دنیا میں چند لوگ ہی ایسے ہوتے ہیں جنھیں زندگی اور موت کے بعد ایسا پیار اور اپنا ئیت ملی ہو۔
کہا جا سکتا ہے کہ سدھو موسے والا ایک البیلا کردار بن چُکا ہے۔