ہم ’سری کانت‘ جیسی فلمیں کیوں نہیں بنا پاتے؟

جمعرات 30 مئی 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

‘میں ملک کا پہلا جزوی طور پر بصارت سے محروم صدر بننا چاہوں گا۔’  بھارتی صدر ابوالکلام آزاد نوجوان طالب علم کی بات پر دم بخود رہ گئے جبکہ نوجوان کے ہم جماعتوں نے زوردار قہقہہ مار کر اس کی تذلیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ نوجوان سری کانت بولا تھا جو جزوی طور پر بصارت سے محروم تھا لیکن اس کے ارادے پہاڑ سے زیادہ بلند تھے۔ اس نے عوام میں یہ شعور اجاگر کیا کہ وہ بینائی سے محروم افراد کو بھیک دینے کے بجائے کام دیں۔

وہی سری کانت بولا جن کے جنم پر اس کے والدین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اسے یتیم خانے میں جمع کرا دیں کیونکہ ایسے بچوں کی پرورش دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتاہے۔  اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سری کانت نے اپنے جیسے بصارت سے محروم افراد کو روزگار دینے کے لیے پلاسٹک ری سائیکل پلانٹ کی فیکٹری کھولی جہاں ہزاروں افراد ملازمت کررہے ہیں۔ یہی نہیں، بھارت کے کئی شہروں میں اس نوعیت کے کارخانے ہیں جہاں سری کانت اپنے جیسے معذور افراد کو روزگار دے رہے ہیں۔ اب انہی سری کانت کی ان تھک محنت اور لگن پر بالی وڈ میں فلم ’سری کانت‘ نمائش پذیر ہوئی ہے جس میں سری کانت کے مرکزی کردار میں راج کمار راؤ ہیں۔ جنہوں نے اب تک اس فلم کے ٹریلر اور گانوں کا نظارہ کیا ہے ان کا یہی کہنا ہے کہ راج کمار راؤ نے جیسے اس کردار میں حقیقت کے رنگ بھر دیے ہیں۔

راج کمار راؤ، حقیقی شخصیات کے لیے بہترین انتخاب

یہ پہلی بار نہیں کہ راج کمار راؤ کسی نامور شخصیت پر بننے والی فلم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے شاہد، علی گڑہ اور عمرتا میں اداکری کے جوہر دکھائے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق راج کمار راؤ میں یہ خوبی ہے کہ مزاحیہ ہو یا سنجیدہ نوعیت کا کردار، وہ خود کو اس میں ڈھال لیتے ہیں۔ ’سری کانت‘ کے مرکزی کردار میں بھی ان کی اداکاری کا معیار غیر معمولی دکھائی دے رہا ہے۔  پوری فلم میں دونوں آنکھوں کو کم وبیش بند کرکے اداکاری کرنا اور چہرے کے ساتھ ساتھ مکالمات کی ادائیگی میں جزئیات کا استعمال واقعی شاندار رہا۔  ہدایتکار توشرہرن دانی نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ جب انہوں نے ’سری کانت‘ بنانے کا ارادہ کیا تو ذہن میں ابتدا سے ہی راج کمار راؤ ہی تھے۔

بظاہر تو وہ رائٹر ہیں لیکن گزشتہ سال انہوں نے ویب سیریز ’اسکیم‘ کی ہدایتکاری دے کر شہرت حاصل کی۔  اور اب بطور ہدایتکار ’سری کانت‘ ان کی دوسری تخلیق ہوگی۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ سری کانت پر فلم بنانے کا سب سے پہلے ارادہ ہدایتکار راکیش اوم پرکاش مہرہ نے کیا تھا لیکن وہ فلم کا آغاز نہ کرسکے، تبھی توشر نے ان سے فلم کے حقوق حاصل کیے۔ لیکن جب سری کانت بولا سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنی بے پناہ مصروفیات کی بنا پر معزرت کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ فلم کے لیے وقت دیں گے تو ان کے دوسرے منصوبے تعطل کا شکار ہوجائیں گے۔ تبھی ہدایتکار نے سری کانت کے قریبی دوست سے مل کر ان کی زندگی کے ان دیکھے باب کی ترتیب دینا شروع کی۔

بالی وڈ میں سچی کہانیوں پر مبنی فلمیں

حالیہ دنوں میں یہ درحجان خاصا پروان چڑھ رہا ہے کہ کسی سچے واقعے یا پھر شخصیت پر فلمیں تخلیق کی جائیں۔ بھاگ ملکھا بھاگ، پان سنگھ تومر، گرو، مری کوم، باجی راؤ مستانی، دنگل، ایم ایس دھونی، سنجو، منٹو وغیرہ نمایاں ہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے۔ اسی طرح 12ویں فیل اور ‘کام چالو ہے’ کو بھی غیرمعمولی پذیرائی ملی۔ بالخصوص 12ویں فیل کی وجہ سے نوجوانوں میں اس بات کا جوش بڑھا کہ وہ سرکاری محکمے میں اعلیٰ عہدے کے لیے اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔

فلمی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ بالی وڈ میں لگ یہی رہا ہے کہانیوں کا فقدان ہوگیا ہے۔ اچھے رائٹرز ناپید ہوگئے ہیں۔ آئیڈیاز کسی کے دماغ میں پک نہیں رہے۔ اسی لیے واقعات اور شخصیات کے گرد ہی بالی وڈ کی تخلیقات گھوم رہی ہیں۔  پھر ان فلموں کو دیکھنے والا نوجوانوں کا وہ طبقہ ضرور ہوتا ہے جنہوں نے واقعات اور شخصیات کے بارے میں سنا اور پڑھا ضرور ہوتا ہے لیکن جب پردہ سیمیں پر ان کی جدوجہد کو دیکھتے ہیں تو ان کے اندر بھی یہ امید اور آرزو جاگ اٹھتی ہے کہ دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں، بس ہمت ہونی چاہیے۔

پاکستانی ہدایتکاروں کی نظرِ کرم سے کہانیاں اوجھل

پاکستانی ہدایتکار اور رائٹرز ابھی تک عشق و محبت کی کہانیوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ بہت ہوگا تو کسی خواجہ سرا پر فلم بنا کر بین الاقوامی میلوں میں شرکت کرنے کے ارمان پورے کرلیتے ہیں۔ کسی کی نگاہ ایسے جیتے جاگتے کرداروں پر نہیں پڑتی جو مثال بن گئے ہیں۔ ذرا آس پاس نظریں گھمائیں تو ہمیں کئی ایسی شخصیات ملیں گی جنہوں نے نامساعد حالات یا معذور ی کے باوجود اپنے لیے الگ راہ کا ایسا انتخاب کیا کہ دنیا ان کے گن گا رہی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستانی ہدایتکاروں کی ساری توجہ بس محبت بھری فرضی کہانیوں پر رہتی ہے۔ جیتے جاگتے کرداروں پر فلم بنانے کے لیے تحقیق اور عرق ریزی کرنی پڑتی ہے، لہذا اس سے راہِ فرار اختیار کیا جاتا ہے۔ آرزو ہی رہی کہ ہمارے یہاں بھی کوئی ایسی فلم بنے جو نوجوان نسل میں ایک نیا جوش اور ولولہ اجاگر کرے جو کسی شخصیت کی مسلسل جدوجہد کو دکھا کر ایک نیا حوصلہ دے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp