وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روزگار کے فقدان کے باعث بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا دوسرے ممالک کا رخ کرنا مجبوری بن چکا ہے۔
مزید پڑھیں
وفاقی وزیر نے اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ملک میں روزگار کے مواقع ملیں گے تو نوجوان کبھی بیرون ملک نہیں جائیں گے۔’ملک میں 100 نوکریاں ہیں اور 10 ہزار لوگ ملازمت کی درخواست دیتے ہیں تو باقی سب کہاں جائیں گے، جب انہیں یہاں روزگار نہیں ملے گا تو وہ مجبورا پاکستان سے جانے کا ہی سوچیں گے۔‘
چوہدری سالک حسین کے مطابق حکومت کو ملک میں نوجوانوں کے لیے نئے مواقع قائم کرنا ہوں گے، حکومت کو علم ہونا چاہیے کہ اگلے برس ہمارا نظام تعلیم کتنے ڈاکٹر اور انجینئر کی ورک فورس فراہم کرے گا۔
’ان کی تعداد کو مد نظر رکھ کر بیرون ممالک کارپوریٹ سیکٹر سے بات چیت کی جائے اور ان کے تعاون سے مقامی صنعتیں لگائی جائیں۔‘
درآمدی اشیا کی مقامی سطح پر پیداوار کی ضرورت پر زور دیتے چوہدری سالک حسین کا کہنا تھا کہ اس طرح ملک میں نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھیں گے بلکہ ملکی معیشت میں بھی نکھار آئے گا۔انہوں نے ملک کو ترقی سے روکنے کا ذمہ دار پاور سیکٹر کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں شہریوں کے اخراجات بری طرح ان کا بجٹ متاثر کررہے ہیں۔
’بنیادی مسئلہ جو ملک کو ترقی سے روک رہا ہے، وہ پاور سیکٹر ہے، ہر شخص خواہ وہ امیر ہے یا غریب وہ گھر کا پنکھا چلاتا ہے تو اسے علم نہیں ہوتا کہ اس پنکھے اور لائٹ کا کتنا بل آئے گا اور جب مہینے کے آخر میں بل آتا ہے تو اس کا سارا بجٹ آؤٹ ہو جاتا ہے۔‘
چوہدری سالک حسین کے مطابق ہماری برآمدات میں اضافہ نہ ہوا تو ملک آگے نہیں بڑھ پائے گا اور اگر حکومت ان حالات میں برآمدات کا کہتی ہے، تو کسی بھی فرد کی فیکٹری کی کمائی کا 35 فیصد اگر بل ہے تو وہ کیسے مارکیٹ میں مقابلہ کر سکتا ہے۔
’اس پورے خطہ میں سب سے زیادہ پیداواری لاگت پاکستان میں آتی ہے، اس کا حل متبادل توانائی ہے، جس پر کام ہو بھی رہا ہے، دوسری اہم بات یہ کہ جو پالیسیاں بنائی جائیں وہ واضح ہوں۔‘
کرغزستان سے آئے طلبا واپس کیسے جائیں گے؟
بشکیک میں غیر ملکی طلبا کے خلاف تشدد کے پس منظر میں ہزاروں کی تعداد میں وطن واپس آنے والے پاکستانی طلبا کا مستقبل کیا ہوگا؟ چوہدری سالک حسین نے بتایا کہ کرغزستان کی یونیورسٹیوں نے ان طلبا کو وہاں کے سیکیورٹی اداروں میں رجسٹر ہی نہیں کرایا تھا۔
’انہیں علم ہی نہیں تھا کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں ایسے بھی لوگ ہیں جن کا انہیں پتا ہی نہیں ہے، تو یہاں نہ صرف وہ لوگ فیل ہیں بلکہ پاکستانی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے طلبا ان کی سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ رجسٹرڈ ہوں۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وطن واپس آنے والے طلبا کے مستقبل کی جہاں تک بات ہے تو پاکستانی حکومت کرغزستانی حکومت کے ساتھ بات چیت کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کرے گی،
پاکستانیوں کی انسانی اسمگلنگ میں میں مختلف اداروں کے لوگ بھی ملوث ہوتے ہیں؟
چوہدری سالک حسین نے بتایا کہ ویزا کنسلٹنٹ مافیا کے ذریعے پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر ملک سے باہر بھیجنے کے عمل میں بد قسمتی سے ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کے لوگ ملوث ہوتے ہیں، جو ان عناصر کی کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
’حکومت کو چاہیے ان لوگوں کی پشت پناہی سے روکا جائے، ان افراد کی نشاندہی کی جائے، ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ ہم معاملات کو ڈیجیٹائز کرنا چاہتے ہیں تاکہ کرپشن اور یہ جو اسکیمر ہیں ان کا خاتمہ ممکن ہو۔‘
سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق کیوں نہیں؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری سالک حسین نے موقف اختیار کیا کہ ساری جماعتیں اگر سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر رضامند ہوتی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن ان کے خیال میں پاکستانیوں کو پاکستان سے باہر سیاست نہیں کرنا چاہیے۔
’جو نظارہ میں نے دیکھا ہے لندن کی گلیوں میں، پاکستانی ایک دوسرے کو گالیاں دے رہے ہیں اور وہاں کا میڈیا پاکستان کے خلاف اس کو استعمال کرتا ہے، تو مجھے لگتا ہے اگر انہیں ووٹ کا بھی حق دے دیا جائے تو سیاسی نظریات کی تفریق کی وجہ سے ان میں نفرت مزید بڑھے گی۔‘
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کو چاہیے جب وہ بیرون ملک کسی دوسری جماعت کے حمایتی شخص سے ملیں تو سب سے پہلے یہ سوچیں سب پاکستانی ہیں۔ ’اپنی جماعت کی حمایت ضرور کریں لیکن اس کو گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑوں کی صورت اختیار نہ کرنے دیں۔‘
دوسرے ممالک پاکستانیوں کو ویزا دینے سے کیوں کتراتے ہیں؟
وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی کا اس ضمن میں موقف تھا کہ پاکستانی جب دوسرے ملک پہنچ جاتے ہیں تو اس کا غلط استعمال کرتے ہیں، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب گئے پاکستانی وہاں جا کر بھیک مانگنا شروع کردیتے ہیں، جس کی وجہ سے وہاں مقیم پاکستانیوں کا مجموعی تاثر بھی خراب ہوتا ہے۔
’ایسا نہیں ہے کہ ویزوں پر پابندی عائد کردی گئی ہے مگر وہ ان افراد کو فلٹر کرنا چاہتے ہیں، تو وہ کچھ وقت کے لیے پابندی یا ویزوں کی تعداد کم کر دیتے ہیں کیوںکہ پاکستانی یہاں سے عمرے کا ویزہ لگواتے ہیں وہاں جا کر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں، سیر کے لیے یورپ جاتے ہیں وہاں سے کسی اور ملک نکل جاتے ہیں، تو بس یہی وجوہات ہیں۔‘
سمندرپار پاکستانیوں کے لیے علیحدہ عدالتیں؟
سمندرپار پاکستانیوں کو ملک میں اپنی بچت کی سرمایہ کاری کے حوالے سے کافی زیادہ فراڈ کا سامنا رہتا ہے، اس حوالے سے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین نے بتایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے علیحدہ عدالتوں کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے جسے جلد منظور کرلیا جائے گا۔
’سمندر پار پاکستانیوں کے جتنے بھی مسائل ہیں، ان کے حقوق کی جہاں پر پامالی ہو رہی ہو، دوسری عدالتوں میں ان کی باری آنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے، اس پس منظر میں علیحدہ عدالتوں کے قیام کے بعد ان کے مسائل کے حل سمیت جلد انصاف مل سکے گا۔‘