ساڑھے 8 سال ڈیلی ڈان کے ساتھ وابستہ رہنے والے سینیئر رپورٹر ارمان صابر امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا سے لے کر ان کے قتل تک کی کوریج کو اپنے کیریئر کا بڑا کام قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈینیئل پرل اغوا کیس پر گہری نظر رکھی تھی اور ان کی خبروں کو اس وقت بین الاقوامی میڈیا پر بھی حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا تھا۔
ارمان صابر نے ڈینیئل پرل کیس کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کے دوران ان باتوں سے پردہ اٹھایا جو کبھی میڈیا پر نہیں آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ سنہ 2002 کا واقعہ ہے جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا نیا نیا آیا تھا لیکن بنیادی طور پر وہ اخبار کا ہی دور تھا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈینیئل پرل کے اغوا ہونے کے 2 دن بعد اس واقعے کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔
ڈینیئل پرل جس دن اغوا ہوئے اسی دن ایک پاکستانی صحافی بھی لاپتا ہوگئے تھے
ارمان صابر کہتے ہیں کہ جس دن ڈینیئل پر ل اغوا ہوئے اسی دن پاکستانی کے ایک صحافی بھی لاپتا ہوگئے تھے، ان کی اہلیہ ڈان اخبار میں کام کرتی تھیں جبکہ لاپتا صحافی بھی پہلے ڈان میں کام کرچکے تھے۔ ان کی اہلیہ نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ غائب ہیں، کوئی رابطہ ہو رہا ہے اور نہ ہی وہ کہیں جانے کا کہہ کر گئے ہیں، تو مجھے سٹی ایڈیٹر نے کہا کہ ان کے شوہر کا پتا لگاؤ۔ ارمان صابر بتاتے ہیں کہ ایدھی سے لے کر حساس اداروں تک ہم نے مغرب سے صبح 4 بجے تک ہر جگہ معلوم کیا اور تب جا کر یہ تسلی دی گئی کہ وہ 6 بجے تک گھر پہنچ جائیں گے اور یہی ہوا کہ 6 بجے کے آس پاس وہ اپنے گھر پہنچ گئے تھے اور بہت جلد وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
جب ڈینیئل پرل کے اغوا کی خبر پھیلی
ارمان صابر بتاتے ہیں کہ اسی دوران اطلاع ملی کہ صرف ہمارا مقامی صحافی ہی نہیں بلکہ کوئی اور صحافی بھی لاپتا ہوا ہے جگہ کا پتا نہیں کہ کہاں سے ہوا لیکن ڈینیئل پرل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی اسی جگہ گئے تھے جہاں مقامی صحافی جا چکے تھے۔
ارمان صابر کہتے ہیں کہ یہ دونوں صحافی ایک جیسی اسٹوریز پر کام کرتے تھے جیسے کہ اس وقت دہشت گردی کے واقعات تھے، 9/11 ہوچکا تھا اور اس سلسلے میں طالبان کو کھوجنا ان کے پیچھے جانا یہ معاملہ تھا اور گمان ہوا کہ شاید یہ بھی اسی سلسلے میں غائب ہوئے لیکن 2 دن بعد جب پتا چلا دوسرا غائب ہونے والا امریکی صحافی ڈینیئل پرل ہے تو پھر ہم نے اسے رپورٹ کیا۔
بین الاقومی صحافی اور ایجینسیاں متحرک ہوئیں
ارمان صابر بتاتے ہیں کہ اس وقت سب سے زیادہ دباؤ پولیس پر تھا کیوں کہ باقی ادارے پس پردہ کام کرتے ہیں اور پولیس سول فورس ہونے کے لحاظ سے فرنٹ پر تھی اور فارن آفس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا بھی ان پر دباؤ تھا، ایجنسیاں متحرک ہو چکی تھیں ایف بی آئی بھی یہاں آچکی تھی، تو ہم نے اس وقت دیکھا کہ پولیس بہت کچھ چھپانا بھی چاہتی تھی اور بہت کچھ بتانا بھی چاہتی تھی لیکن بہت سے سینیئر پولیس افسران بھی ہمیں نروس دکھائی دیتے تھے۔
بین الاقوامی صحافیوں کے رابطے
ارمان صابر کا کہنا ہے کہ اس موقع پر کچھ صحافی پاکستان آچکے تھے اور کچھ بین الاقومی اخبارات کے صحافی ہم سے رابطے کر رہے تھے، یہاں موجود بین الاقوامی صحافیوں کو معلومات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا کیوں کہ جو رسائی پولیس تک ہماری تھی وہ ان کی نہیں تھی تو وہ ہم سے رابطہ کرتے تھے، وہ جدید ساز وسامان سے لیس تھے، لیکن ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع اس لیے نہیں ملا کیوں کہ اخبار کا رپورٹر اس وقت ایکسکلوسیو اسٹوری کے پیچھے جاتا تھا اور وہ تب ممکن ہوتا ہے جب آپ اکیلے کام کریں، فارن جرنلسٹس ہم سے معلومات حاصل کرنے کے لیے آتے تھے نہ کہ کام کرنے کے لیے۔
گورنر نے کہا کہ بہت جلد بریک تھرو ہونے والا ہے
ارمان صابر کہتے ہیں کے ڈینیئل پرل کے اغوا سے لے کر قتل تک کے عرصے میں بہت سے نشیب و فراز آئے، اس کیس پر مقامی پولیس سے لے کر مقامی اور بین الاقوامی اداروں کی نظریں تھیں بڑا کیس ہونے کے ناتے ہم پر بھی یہ پریشر تھا کہ کچھ نہ کچھ فالو اپ آنا چاہیے اور ہم فالو اپ دیتے بھی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے گورنر نے کہا تھا کہ بہت جلد بریک تھرو ہونے والا ہے اس کا مطلب تو یہی تھا کہ ڈینیئل پرل بازیاب ہونے والے ہیں یا ہو چکے ہیں لیکن ہمیں کچھ بتایا نہیں جا رہا تھا۔
جب ذرائع نے بتایا کہ ڈینیئل پرل کا فضائی ٹکٹ بک ہو چکا ہے
ارمان صابر کہتے ہیں کہ اس دوران ایک سورس نے بتایا کہ ڈینیئل پرل کا فضائی ٹکٹ بک ہو چکا ہے، یہ ایک بڑی خبر تھے اور اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ڈینیئل پرل کو بازیاب کرالیا گیا ہے کیوں کہ ٹکٹ بک ہی تب ہوتا ہے جب مسافر کے تمام دستاویزات اور وہ خود بھی موجود ہو۔
سی این این اور فاکس نیوز نے ڈان اخبار کی خبر کا حوالہ دیا
ارمان صابر کہتے ہیں کہ جب ڈینیئل پرل کے ٹکٹ کے حوالے سے میری بائی لائن چھپی تو سی این این اور فاکس نیوز پر ڈان اخبار کو لہرا لہرا کر اس خبر کا حوالہ دیا گیا اور تجزیے دیے گئے کیوں کہ یہ ایک بڑی خبر تھی اور جتنی یہ بڑی خبر تھی اتنی ہی شدت سے فارن آفس نے اس خبر کی تردید کردی تھی اور کہا گیا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
وہ ڈینیئل نہیں بلکہ ڈینیئم پرل تھا
ارمان صابر کہتے ہیں کہ اس وقت فارن آفس نے میری خبر کو غلط قرار دے کر کہا کہ جس کے بارے میں کہا جا رہا کہ ڈینیئل پرل کا ٹکٹ بک ہوگیا ہے وہ اصل میں ڈینیئم پرل ہے جو افغانستان سے آیا تھا اور اسے امریکا جانا تھا اور ناموں کی مماثلت سے یہ غلطی ہوئی ہے۔
صحافی کو اس خبر پر چپ رہنے کا اشارہ ملا
ارمان صابر کا کہنا ہے کہ فارن آفس کی جانب سے رد عمل آنے کے بعد انہوں نے مزید اس اسٹوری پر کام کیا لیکن وہ اسٹوری پھر چھپی نہیں، ان کا کہنا تھا کہ پہلی خبر کا رد عمل یہ ہوا کہ ٹریول ایجنسی کے خلاف کارروائی ہوئی لیکن میں جس اسٹوری پر کام کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ ڈینیئل پرل کا پاسپورٹ الگ جبکہ ڈینیئم پرل کا الگ ہے جس کو مکس اپ کیا جا رہا تھا لیکن میرے اسٹوری پر کام کرنے کا پتا چل گیا تھا اس لیے مجھے آفس نے کہا کہ اب آپ اس اسٹوری کو فالو نہ کریں تو بہتر ہوگا۔
ارمان صابر نے کہا کہ میرے اس وقت کے نیوز ایڈیٹر نے مجھے بلا کر کہا کہ look Arman i can afford to miss a story but i can’t afford to miss my reporter, leave it. ۔
انہوں نے کہا کہ یہ پریشر ان اسٹوریز پر تھا جن پر میں کام کر رہا تھا لیکن جو روٹین کی خبریں تھیں وہ میں دیتا رہا۔ ارمان صابر کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار تھا کہ میں نے پریشر محسوس کیا اور اس کے بعد تو اس سے شدید پریشرز بھی آئے۔
ڈینیئل پرل کے موت کی سرکاری سطح پر تصدیق
ارمان صابر بتاتے ہیں ڈینیئل پرل کیس ڈان اخبار شروع سے فالو کر رہا تھا اور ان کے قتل سے 2 یا 3 دن پہلے ہمارے پاس خبریں آگئی تھیں کہ شاید ڈینیئل پرل اب دنیا میں نہیں رہے لیکن یہ معلومات واضع نہیں تھیں، اس کے بعد رات 2 بجے کے بعد حکومت نے ایک پریس ریلیز جاری کی، 2 بجے ڈان اخبار ڈاؤن ہو جاتا ہے مطلب اس کی کاپی پرنٹنگ کے لیے چلی جاتی تھی جبکہ اردو اخبارات کی کاپی تھوڑی دیر سے جاتی ہے اور مجھے اس بات کا اندازہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں کرائم رپورٹر ہونے کے لحاظ سے دفتر میں کاپی ڈاؤن ہونے تک رکتا تھا تاکہ کوئی بڑی خبر آئے تو وہ رک نہ جائے لیکن اس دن کاپی ڈاؤن ہو چکی تھی اور میں گھر بھی پہنچ چکا تھا اور کچھ دیر بعد لینڈ لائن پر ایک فون کال آئی جس پر مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے پریس ریلیز دیکھ لی؟ میں نے کہا کون سی پریس ریلیز مجھے تو نہیں ملی تو وہاں سے جواب ملا کہ ہم نے آپ کو فیکس کیا ہے اور کہا گیا کہ ہم نے آفس فون کیا کسی نے فون نہیں اٹھایا اس لیے آپ کے گھر فون کیا۔
ارمان صابر کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈائریکٹ لائن پر آفس فون کیا تو وہاں آفس بوائے جو گھر جانے ہی والے تھے نے فون اٹھا لیا۔
ارمان صابر کہتے ہیں کہ آفس بوائے سے پوچھا دیکھو کوئی فیکس آیا ہے تو اس نے کہا جی آیا ہے جو حکومت کی جانب سے تھا اور جس پر تحریر تھا کہ Denial Pearl found dead، اس کے بعد ارمان صابر کہتے ہیں کہ یہ اغوا کیس کی آخری خبر تھی اور جسے میں اس وقت سمجھتا تھا کہ یہ ڈان میں چھپنی چاہیے کیوں کہ یہ اس کیس کے ایک پہلو کا اختتام تھا۔
جب ڈینیئل پرل کے قتل کی خبر کے لیے ڈان کی کاپی روکنی پڑی
ارمان صابر کہتے ہیں میں نے اس وقت اپنی سٹی ایڈیٹر کو فون کیا اور بتایا کہ یہ خبر ہے تو انہوں نے کہا کہ اب تو کچھ نہیں ہو سکتا کاپی تو چلی گئی اور میں بھی گھر آچکا ہوں میں نے انہیں کہا کہ سر کاپی رکوائیں ہمیں یہ خبر لینی چاہیے، جواب ملا کہ میں کاپی رکوا بھی دوں تو اس وقت خبر لگائے گا کون اس وقت تو کوئی بھی پیج میکر نہیں ہے سب جا چکے تو ارمان صابر کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں اس کا بھی انتظام کرتا ہوں اس کے بعد میں نے پیج میکر انچارج کو فون کیا اور کہا کہ یہ معاملہ ہے آپ تیار رہیں واپس دفتر جانا ہے تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے وہ بھی اسی وقت گھر پہنچے تھے اور جاگ رہے تھے اور میں نے دوبارہ اپنے سٹی ایڈیٹر کو فون کیا اور بتایا کہ یہ سب ہوگیا اب آپ چلیں لیکن انہوں نے کہا کہ میں کاپی نہیں رکوا سکتا میرے پاس اس کا اختیار نہیں ہے آپ ایڈیٹر کو فون کریں میں نے کہا میرے پاس ایڈیٹر کا نمبر نہیں انہوں نے مجھے نمبر دے دیا اور میں نے رات ڈھائی بجے ڈان کے ایڈیٹر کو فون کیا تو انہوں نے کہا ہاں ارمان بولو کیا بات ہے میں نے کہا سر یہ معاملہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت تو کاپی پرنٹنگ کے لیے جا چکی ہے تو میں نے کہا سر واپس منگوا لیں یہ میری آپ سے گزارش ہے یہ خبر ہم مس نہیں کرسکتے بلکہ مس کرنی ہی نہیں چاہیے، تو انہوں نے پوچھا کہ یہ لگائے گا کون ایڈیٹ کون کرے گا میں نے کہا کہ سر میری بات سٹی ایڈیٹر سے ہوگئی تو انہوں نے کہا وہ چلے جائیں گے اس پر میں نے کہا جی چلے جائیں گے تو انہوں نے کہا کہ دیکھو ارمان میں آدھے گھنٹے تک کاپی روک سکتا ہوں اگر آدھے گھنٹے میں ہو سکتا ہے تو بتاؤ میں نے کہا ٹھیک ہے ہو جائے گا، اس کے بعد میں نے پہلے سب کو پک کیا اور گاڑی دوڑاتے ہوئے آفس پہنچا اس کے بعد فیکس اٹھایا اس سے خبر بنی اور ایڈیٹ ہوئی اور پھر پیج پر لگی یہ سارا معاملہ گھر سے لے کر وہاں تک کا 35 منٹوں میں مکمل کرکے دوبارہ کاپی پرنٹنگ میں بھیج دی گئی اور اگلے دن یہ خبر صفحہ اول پر لگی ہوئی تھی۔
ڈینیئل پرل کون تھے؟
38 سالہ امریکی صحافی ڈینیئل پرل وال اسٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف تھے۔ وہ ایک خبر کے سلسلے میں کراچی آئے تھے اور اغوا ہوگئے تھے۔ ان کی لاش ملنے پر 16 مئی 2002 کو سرکاری طور پر ان کے قتل کی تصدیق کی گئی تھی۔