انٹرنیٹ فائروال منصوبہ پاکستان میں قابل عمل ہو پائے گا؟

جمعہ 31 مئی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

آج کے دور میں انٹرنیٹ جہاں ہماری زندگیوں کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے وہیں اس کے ذریعے منظم جرائم اور ایسی سرگرمیاں بھی وقوع پذیر ہوتی ہیں جو نہ صرف افراد بلکہ ملکی سلامتی اور وحدت کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہیں اس لیے انٹرنیٹ دنیا بھر میں مختلف حکومتوں اور ملکوں کے لیے خطرہ بھی بن سکتا ہے۔

انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلنے والی جعلی خبریں ہوں یا منظم جرائم، مختلف ممالک میں انٹرنیٹ کنٹرول کی مختلف تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔

انٹرنیٹ فائر وال کیا ہے؟

فائر وال ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے ذریعے کوئی ملک انٹرنیٹ پر ناپسندیدہ مواد کو سوشل میڈیا پر نشر ہونے سے روک سکتا ہے اور اس کے ذریعے ناپسندیدہ ویب سائٹس کو بلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں کب کب انٹرنیٹ پابندیوں کا سامنا کیا گیا؟

پاکستان میں  گزشتہ دنوں مختلف نیوز پلیٹ فارمز پر کچھ ایسی خبریں آئیں کہ پاکستان چین سے انٹرنیٹ فائروال خریدنا چاہتا ہے لیکن چین کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے۔

پاکستان میں پہلی بار سنہ 2008 میں مذہبی حساسیت کے پیش نظر یوٹیوب پر پابندی عائد کی گئی۔ اس کے بعد سنہ 2010 میں کچھ وقت کے لیے فیس بک، پھر سال 2012 سے سال 2016 کے درمیان یوٹیوب اور اب فروری 2024 کے بعد سے پاکستان میں ایکس (ٹوئٹر جس کا نام اب تبدیل کردیا گیا ہے) کی سروس معطل ہے۔

کون کون سے ممالک میں انٹرنیٹ کنٹرولڈ ہے؟

دنیا کے کئی ممالک میں انٹرنیٹ کو جزوی طور پر کنٹرول کیا جاتا ہے جن میں شمالی کوریا، چین اور خلیجی ممالک بھی شامل ہیں جہاں مختلف انٹرنیٹ پلیٹ فارمز اور ویب سائیٹس کو بلاک کیا جاتا ہے۔

فائر وال سے ای کامرس بری طرح متاثر ہو سکتی ہے، فریحہ عزیز

ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی این جی او ’بولو بھی‘ کی ڈائریکٹر فریحہ عزیز نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت سنہ 2012 سے کام کر رہی ہے اور نیشنل یو آر ایل فلٹرنگ سسٹم کے لیے انہوں نے ٹینڈر بھی فلوٹ کیا تھا۔

فریحہ عزیز نے بتایا کہ فائروال سسٹم بنیادی طور پر جو انٹرنیٹ گیٹ ویز ہیں وہاں لگایا جاتا ہے جہاں سے انٹرنیٹ اپ لنک اور ڈاؤن لنک ہوتا ہے اور اس کا مقصد انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن اب چونکہ زیادہ تر انٹرنیٹ ٹریفک انکرپٹڈ ہوتی ہے تو اگر ایسا اقدام کیا جاتا ہے تو اس سے پہلے تو انٹرنیٹ ٹریفک کو ڈیکرپٹ کرنا پڑے گا جس سے ای کامرس بری طرح سے متاثر ہو گی اور انٹرنیٹ بینکنگ پر بھی اثر پڑے گا جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اور پرائیویسی بھی بے حد کمزور ہو  جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ فائر وال بھی مکمل طور پر انٹرنیٹ کو کنڑول نہیں کر پائے گی اور لوگ مختلف ویب سائٹس دیکھنے کے لیے وی پی این استعمال کرتے ہیں لیکن وی پی این کے استعمال سے کچھ ویب سائٹس نہیں کھلتیں۔

حکومت کے فائروال یا انٹرنیٹ مانیٹرنگ کے حوالے سے منصوبے سے متعلق سوال پر فریحہ عزیز نے کہا کہ اس کے لیے آئندہ بجٹ میں 20 ارب روپے مانگے گئے ہیں۔

فریحہ عزیز نے کہا کہ پاکستان انٹرنیٹ کے بارے میں جس طرح کی پالیسیز وضع کر رہا ہے اس سے اس کا مقصد یہ لگتا ہے کہ گوگل، فیس بک اور اس طرح کی بڑی کمپنیوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ پاکستان میں اپنے سرور انسٹال کریں تاکہ ناپسندیدہ مواد ہٹوایا جا سکے لیکن پاکستان میں جس طرح کے سیکیورٹی حالات ہیں یہ کمپنیاں اپنے سرور یہاں انسٹال نہیں کریں گی۔

چین میں بھی فائر وال مکمل طور پر کامیاب نہیں، پاکستانی صحافی

چین میں موجود ایک پاکستانی صحافی نے بتایا کہ چین میں انٹرنیٹ فائروال بھی مکمل طور پر کامیاب نہیں بلکہ لوگ وی پی این کے ذریعے سے ایسی مختلف ویب سائٹس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جن پر چینی حکومت نے پابندی عائد کی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لیکن چین میں چونکہ ان کی اپنی بڑی انٹرنیٹ کمپنیوں کے سرورز موجود ہیں اس لیے وہ ناپسندیدہ مواد حذف کروا سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اب ایلون مسک کی کمپنی اسٹارلنکس سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست انٹرنیٹ سروسز پروائیڈ کرنے جا رہی ہے جس کے بعد لوگوں کا انٹرنیٹ سروس پروائیڈرز پر انحصار ختم ہو جائے گا اور وہ براہ راست سیٹلائٹ سے منسلک ہو جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ سروس انڈونیشیا اور قطر ایئرلائن میں مہیا کر دی گئی ہے اور اب اس تناظر میں کوئی بھی فائر وال انٹرنیٹ سروسز کو ریگولیٹ نہیں کر پائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp