نو مئی کے بعد زیرعتاب جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ورکرز صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بننے کے بعد بھی کیسز ختم نہ ہونے، پولیس اور انتظامی افسران کے تبادلے اور عمران خان کی رہائی نہ ہونے پر پہلے ہی سے خفا تھے، اب وزیرا علیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور کی مقتدر حلقوں سے قربت اور وفاق میں کچھ خصوصی ملاقاتوں پر سخت ناراض دکھائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے بعض سینئیر رہنما علی امین گنڈاپور کی ملاقاتوں پر شدید تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں تاہم وہ کھل کر میڈیا پر بولنے سے بھی کتراتے ہیں۔
’ہم جدوجہد کر رہے ہیں دوسری جانب ملاقاتیں ہو رہی ہیں‘
پاکستان تحریک انصاف کے ایک سینئیر رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور جو کچھ کر رہے ہیں، اس حوالے سے ان کے شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب برا وقت تھا تب فیصلہ ہوا تھا کہ جدوجہد کریں گے اور اپنا حق لیں گے اور وہ اب بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ صورت حال واضح نہیں ہے کیونکہ عمران خان سے بیشتر لوگوں کا رابطہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے ورکرز بھی خوش نہیں ہیں۔ کم از کم وزیر اعلیٰ کو کابینہ کے ساتھ کور کمانڈر ہاؤس نہیں جانا چاہیے تھا۔
جو وعدہ ہوا تھا سب اس کے برعکس ہو رہا ہے
پی ٹی آئی کے ایک رہنما جو نو مئی کے بعد کیسز کا سامنا کر رہے ہیں، نے بھی صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت سے پہلے بتایا گیا تھا کہ حکومت بننے کے بعد تمام کیسز ختم کیے جائیں گے، دھاندلی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی ہو گی اور پی ٹی آئی کارکنان، رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی اور انصاف کے لیے جدوجہد کریں گے لیکن حکومت بننے کے بعد کچھ بھی نہیں ہوا۔ باقی بات تو چھوڑیں، ڈپٹی کمشنر پشاور کو بھی ابھی تک تبدیل نہیں کیا گیا۔
انھوں نے بتایا کہ تحریک انصاف مقتدر حلقوں کے خلاف جدوجہد کر رہی تھی۔ اور اس کا موقف ہے کہ مقتدر حلقوں نے انہیں حکومت سے روکا ہے۔ اب وزیراعلیٰ ان کے ساتھ تعلق بنا رہے ہیں، ملاقاتیں کررہے ہیں۔ یہ ملاقتیں نہیں ہیں بلکہ ہمارے زخمیوں پر نمک پاشی ہے۔
عمران خان کی رہائی کا انتظار ہے
پی ٹی آئی کے رہنما نے بتایا کہ ان کا اور دیگر اہم رہنماؤں کا عمران خان سے سے رابطہ نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کی رہائی یا ملاقات کا انتظار کر رہے ہیں۔ جس دن ملاقات ہو گی وہ تمام تر صورت حال سے انہیں آگاہ کریں گے۔
’ہمیں نہیں پتہ کہ عمران خان حقیقی صورت حال سے باخبر ہیں یا نہیں۔ یا ہمیں دھوکے میں رکھا جا رہا ہے۔ جب خان صاحب باہر آئیں گے، تب ہی صورت حال واضح ہو گی۔‘
پارٹی کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ امپریشن یہ دیا جا رہا ہے کہ علی امین گنڈاپور عمران خان کے لیے جہدوجہد کر رہے ہیں اور ملاقاتیں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لیکن ورکرز اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
علی امین کی اہمیت پہلے سے بڑھ گئی ہے
سینئیر صحافی و تجزیہ نگار محمود جان بابر کا ماننا ہے کہ موجود حالات میں علی امین گنڈاپور کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ اور اس سے پارٹی کے وہ لوگ جو مقتدر حلقوں کے خلاف ہیں، ان کی اہمیت علی امین گنڈاپور کی وجہ سے کم ہو گئی ہے۔ وہ شاید ناراض ہوں گے۔
‘علی مین گنڈاپور کی پوزیشن کلئیر نہیں ہے، وہ کیا کر رہے ہیں کسی کو کچھ نہیں پتہ۔ لیکن اس سے ان کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور مقتدر حلقے بھی ان کے ساتھ بیٹھتے ہیں -‘
محمود جان بابر نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں اسد قیصر، شہرام ترکئی، عاطف خان اور دیگر اینٹی اسٹیبلشمنت سمجھے جاتے ہیں، وہ مقتدر حلقوں سے بات چیت کے مخالف ہیں۔ اس وجہ سے ان کی اہمیت کم ہو رہی ہے۔ ان کے ساتھ کوئی مذاکرات یا بات چیت کو تیار نہیں، سب علی امین گنڈاپور کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں علی امین گنڈاپور سب کو منظور ہے۔ وہ ورکرز کو سرگرم رکھنا جانتے ہیں، تیز بولتے ہیں، سب سے ملتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا مقتدر حلقوں سے بھی رابطہ ہے۔ اسی وجہ سے اب وہ سب کو منظور ہیں۔
تاہم سینئیر صحافی عارف حیات کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر علی امین گنڈاپور کے خلاف لاوا پک رہا ہے جو شاید عمران خان کے باہر آتے ہی پھٹ جائے گا۔ ان کا تجزیہ ہے کہ اس وقت ورکرز حکومت سے ناراض ہیں جبکہ اہم رہنما منظر سے غائب ہیں۔ یہ سب عمران خان کے رہائی کے بے تابی سے منتظر ہیں۔