وطن عزیر میں ایک بار پھر کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگائے جانے کی بازگشت ہے۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں کو بین کیا گیا لیکن کیا اس سے وہ مقاصد حاصل ہوئے جس کے لیے ان پر پابندیاں لگائی گئیں اور کیا پی ٹی آئی کو ملک دشمن قرار دے کر اس پر پابندی لگانا ممکن ہے بھی کہ نہیں؟ اور اگر کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانی ہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
ان سوالات کے جوابات دینے سے پہلے مناسب ہوگا کہ پہلے سیاسی جماعتوں پر پابندی کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے۔ ماضی میں بھی مختلف سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن ہم نے دیکھا اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ جن سیاسی جماعتوں پر 70 کی دہائی میں پابندی لگائی گئی تھی ان میں سوائے ایک کے باقی جماعتیں اب بھی کسی نہ کسی نام سے اپنا وجود رکھتی ہیں۔
جنرل یحییٰ کا دور آمریت سیاسی جماعتوں کے لیے بدترین تھا۔ اس کے دور میں 3 جماعتوں کو بین کیا گیا جن میں جنرل ایوب خان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ، شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ اور خان ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی شامل تھیں۔ عوامی لیگ کا تو بنگلا دیش بننے کے بعد پاکستان سے کوئی تعلق ہی نہ رہا۔ خان ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی اپنا کام کرتی رہی جبکہ جنرل ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کا اسٹیٹس ابھی بھی ایک بین سیاسی جماعت کا ہے۔
1975 میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں پر پابندی کا کیس سنا لیکن خان ولی خان نے سپریم کورٹ کی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا اور اس طرح عدالت نے یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے اس پر پابندی لگا دی۔ جنرل یحییٰ کے دور کے بعد ضیاالحق نے اسی کو بہانہ بنا کر 1977 اور 1979 کے انتخابات ملتوی کردیے اور بالآخر 1979 میں ساری سیاسی جماعتوں کو ہی بین کردیا۔
جنرل ضیاالحق کی طرف سے لگائی گئی پابندی بالآخر 1988 میں ختم ہوئی۔ PLD 1988 Supreme Court 416 میں عدالت عظمیٰ کے فل کورٹ نے بینظیر بھٹو کی دائر پٹیشن پر اپنا فیصلہ دیتے ہوئے نہ صرف پابندی ہٹائی بلکہ یہ بھی کہاکہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت سیاسی جماعتوں پر پابندی صرف اور صرف 2 جرائم sovereignty اور integrity of Pakistan کے خلاف کام کرنے کا جرم اگر ثابت ہوجائے تو ان جماعتوں یا ان کے عہدیداروں پر 5 سال کی پابندی لگ سکتی ہے۔ اگر اسٹیٹ نے کوئی اور جرائم جیسا کہ شعائر اسلامی کی خلاف ورزی یا دیگر کی بنیاد پر کسی جماعت کو بین کرنا ہے تو اس کے لیے صرف پولیٹیکل پارٹیز آرڈر میں ترمیم سے کسی جماعت کو بین نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے آئین میں ترمیم لازمی ہے۔
اب اگر کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانی ہے تو اس کے لیے 2 راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت وفاقی حکومت اس سیاسی جماعت کے خلاف شواہد کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کرے گی کیونکہ حکومت بھی کوئی سیاسی جماعت ہی کررہی ہوتی ہے اور جس پر پابندی لگانا مقصود ہے وہ بھی کوئی سیاسی جماعت ہے تو مفادات کے ٹکراؤ کے اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ کو ایک نیوٹرل ایمپائر کے طور پر معاملہ ریفر کیا جاتا ہے۔
سیاسی جماعت پر پابندی کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کسی سیاسی جماعت کو دہشتگرد ڈیکلئیر کرکے اس کو شیڈول 4 میں ڈالا جائے اور اس کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو ضبط کردیا جائے تا حکم ثانی۔ کیا آپ جانتے ہیں آئین پاکستان میں صرف 3 چیزوں کو جرم ڈیکلئیر کیا گیا ہے، ایک آرٹیکل 6 غداری کا جرم ہے، دوسرا آرٹیکل 204 توہین عدالت کا جرم ہے اور تیسرا آرٹیکل 256 کسی بھی قسم کی پرائیویٹ آرمڈ ملیشیا رکھنا غیر قانونی ہے۔ یہ انسداد دہشتگردی ایکٹ بھی آئین کے اسی آرٹیکل 256 سے ماخوذ کیا گیا ہے۔
لیکن سیاسی جماعت پر پابندی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت نہیں بلکہ آرٹیکل 17 (2) کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرکے لگائی جاتی ہے۔ اگر آئین و قانون اور ماضی کے عدالتی فیصلے کی نظیر کو سامنے رکھا جائے تو پی ٹی آئی کوئی چھوٹی علاقائی جماعت نہیں بلکہ ایک بڑی جماعت ہے اس ہر پابندی لگانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی موجودہ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں کبھی ایسا چاہیں گی کہ اس طرح کسی مخالف سیاسی جماعت کو بین کیا جائے۔ کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو مستقبل کے لیے ایک راستہ کھل جائے گا۔ اور اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ریفرنس دائر کرنا اور اس کے لیے گراؤنڈز اور شواہد کوئی اتنا آسان کام نہیں۔ اس لیے میرے خیال میں یہ ٹی وی ٹاک شوز یا پریس کانفرنسز کی حد تک نعرے بازی تو چلتی رہے گی لیکن عملاً پی ٹی آئی پر پابندی لگانا مشکل کام لگتا ہے۔