پاکستان کی سیاست میں کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی کو شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی مظلومیت کا خیال آتا ہے، زیادہ تر اس حوالے کا مقصد تاریخ سے سیکھنا یا سکھانا نہیں ہوتا، بس اپنے سیاسی موقف یا آج کی رائج اصطلاح کے مطابق ’سیاسی بیانیے‘ میں زور پیدا کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ حکایت ہمیشہ درمیان سے شروع کی جاتی ہے۔
جنرل یحییٰ خان اور شیخ مجیب الرحمٰن کی کہانی پر زقند لگانے سے قبل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے پڑاؤ ہیں جہاں کھلے دماغ سے غور کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
ایک اہم پڑاؤ حسین شہید سہروردی کے ساتھ جنرل ایوب خان کا برتاؤ ہے، اسے سمجھنے کے بعد ہی ہمارے لیے جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان میں بحران کی تفہیم ممکن ہو سکے گی۔
جنرل ایوب خان کے عسکری جانشین جنرل یحییٰ خان تھے اور سہروردی کی سیاسی وراثت مجیب الرحمٰن کو منتقل ہوئی تھی۔ اس لیے زمانی ترتیب کے لحاظ سے پہلے بڑوں کی بات سن لینی چاہیے، مجید امجد کی نظم کی لائنیں ہیں؛
‘ کوئی بھی واقعہ کبھی تنہا نہیں ہوا…
ہر سانحہ اک الجھی ہوئی واردات ہے’
تو آئیے اس الجھی ہوئی واردات کی ایک گتھی سلجھانے کی طالب علمانہ کوشش کرتے ہیں۔
حسین شہید سہروردی کے بارے میں بدزبانی اور انہیں غدار قرار دینے کی ریت لیاقت علی خان نے شروع کی تھی، قدرت اللہ شہاب نے ‘شہاب نامہ’ میں پاکستان ٹائمز سے لیاقت علی خان کی ایک تقریر کا منتخب حصہ نقل کیا ہے جس میں سے سہروردی کے بارے میں ان کے تلخ لہجے کا نمونہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
“بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں، یہ لوگ وطن کے غدار ہیں ،جھوٹے ہیں، منافق ہیں۔”
شہاب نے لکھا کہ حسین شہید سہروردی کے بارے میں لیاقت علی خان کی گفتگو ایوب خان نے انگریزی اور اردو میں ڈائری پر چڑھا رکھی تھی، جسے اقتدار پر قبضے کے بعد وہ نجی محفلوں میں چٹخارے لے کر سناتے تھے۔
لیاقت علی خان نے تو صرف حسین شہید سہروردی پر بھونڈے الزامات عائد کیے تھے لیکن صدر بننے کے بعد جنرل ایوب خان نے تو انہی الزامات کی بنیاد پر انہیں جیل میں ڈال دیا، اس سے قبل وہ ان کی سیاست کے دروازے پر ایبڈو کا تالا ڈال چکے تھے۔
صدر ایوب خان کی حکومت نے 1962 کا آئین، جس میں ان کی ذات کو حاصل مرکزیت کی بنا پر طنزاً فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی گئی تھی، نافذ کرنے سے ایک ماہ قبل حیسن شہید سہروردی کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں سیکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا تھا۔
اس وقت حسین شہید سہروردی کی عمر 70 برس تھی، پیرانہ سالی میں بنگال کے سابق وزیراعظم، پاکستان کے سابق وزیر قانون اور تحریک پاکستان کے رہنما کے ساتھ جیل میں جو سلوک ہو رہا تھا اس کی ایک جھلک سابق بیوروکریٹ سید منیر حسین کی کتاب Surviving the Wreck میں ملتی ہے۔
جیل میں انہیں برے حال میں دیکھ کر منیر حسین کو بڑی تکلیف ہوئی، بیت الخلا میں فرشی کموڈ ان کے لیے باعثِ آزار تھا جبکہ وہ جیل قواعد کی رو سے اے کلاس کے حامل قیدی تھے۔
حسین شہید سہروردی کی گرفتاری پر مشرقی پاکستان میں شدید احتجاج ہوا جسے روایتی زور زبردستی سے دبانے کی کوشش ہوئی تو لوگوں کے جذبات اور بھی بھڑک گئے،کراچی سے گرفتاری اور پابند سلاسل رکھنے کا فیصلہ بھی بنگالیوں کے ردعمل کے ڈر سے ہوا تھا۔
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل بھی مشرقی بنگال میں ایک مقبول لیڈر تھے، مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے رہنما کی حیثیت سے انہیں بلند مقام حاصل تھا، 1954 میں جس سیاسی اتحاد نے مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کا صفایا کیا تھا سہروردی اس کے بنیاد گزار تھے۔ ان کی ذات ملک کے دونوں حصوں کے لیے مضبوط کڑی تھی جس پر ٓصدر ایوب خان نے انتقامی کارروائی کی کاری ضرب لگائی تھی۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس وقت حسین شہید سہروردی جیسی جامع الحیثیات ہستی پاکستانی سیاست میں اور کوئی نہیں تھی، وہ اپنے منفرد مقام کا ادراک رکھتے تھے اور مشرقی اور مغربی پاکستان میں دوریاں کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔
سینئر سیاستدان اور سابق وفاقی وزیر یوسف خٹک نے معروف صحافی منیر احمد منیر کو انٹرویو میں بتایا؛
“سہروردی صاحب کے دل میں پاکستان کے لیے بڑا درد تھا، 1962 کی نیشنل اسمبلی میں میں اپوزیشن لیڈر تھا، سہروردی صاحب نے مجھے ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا کہ آپ ایوب خان سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لیے آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement (آئینی تصفیہ) ہو جائے ۔ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔ میں ایوب خان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خان صدر ہوں تو میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں…میں دل کا مریض ہوں مجھے پتا ہے کہ اب میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہوں گا لیکن میں پاکستان کے لیے یہ آخری خدمت انجام دینا چاہتا ہوں اور مجھے کچھ نہیں چاہیے۔”
منیر احمد منیر نے بانی پاکستان کے بارے میں اپنی کتاب ‘ قائد اعظم ،اعتراضات اور حقائق ‘ کو مذکورہ بالا اقتباس کے ساتھ حسین شہید سہروردی کے نام معنون کیا تو اس کے بعد یہ ایک سطر بھی بڑھائی ہے :
“قائد اعظم کے پاکستان کے ایکے اور یکجائی کی یہ سہروردی پیشکش حاکم وقت فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان نے مسترد کر دی۔”
نامور صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خان نے ’جیون ایک کہانی‘ میں لکھا ہے کہ سہروردی کی وزارتِ عظمیٰ سے مشرقی بنگال کے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن اس کے باوجود وہی ایک رہنما تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک لڑی میں پرو سکتے تھے، اس بات کے حق میں وہ وزیراعظم کی حیثیت سے سہروردی کی ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں تقریر کا حوالہ دیتے ہیں؛
“مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے، ہم اول بھی پاکستانی ہیں اور آخر بھی۔ یہ کہنا غلط ہے کہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان پر ظلم کر رہا ہے۔ جن لوگوں نے آپ پر ظلم کیا ہے وہی مغربی پاکستان کو بھی اپنے مظالم کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ہم ایک ہیں اور ہماری عزت بھی اسی میں ہے کہ ہم ایک رہیں۔ میری یہ ایک کامیابی ہے کہ میں نے پاکستان کے دونوں حصوں کے درمیان نفرت ختم کر دی ہے۔”
علی احمد خان نے کتاب میں تقریر کا یہ حصہ نقل کرنے کے بعد لکھا: “مشرقی بنگال میں اس موضوع پر اتنے اعتماد سے اس طرح کی بات وہی (سہروردی )کہہ سکتے تھے۔”
ایک طرف سہروردی کی مثبت سوچ تھی تو دوسری طرف ایوب خان کے بے بنیاد الزامات جنہوں نے حسین شہید سہروردی کو جس ذہنی کرب سے دوچار کیا اس کا اندازہ جیل سے ان کے ڈکٹیٹر کے نام تحریر کیے گئے خط سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے دل کھول کر رکھ دیا تھا۔
“مجھے یہ جان کر انتہائی صدمہ ہوا کہ مبینہ طور پر آپ نے ڈھاکہ میں یہ بھی کہا ( اگرچہ اسے میری گرفتاری کی رسمی وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا) کہ اس سے (یعنی سہروردی سے) کچھ بعید نہیں کہ اس نے پاکستان کے دشمنوں سے مالی امداد بھی حاصل کی ہو۔ معاف کیجیے گا جناب صدر ! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس قدر سنجیدہ الزام عائد کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا جواز تھا؟۔۔۔ غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو ہندوستان میں مدغم کرنے کے لیے بھارت سے مالی امداد وصول کر رہا ہوں ۔ جناب صدر! اسے ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے اور اللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کرلے گا۔ اسی دنیا میں یا اگلے جہاں میں کیونکہ آپ کے یہی جذبات ہیں تو پھر مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔” (بحوالہ سہروردی کی سیاست بیتی، مرتب :محمد ایچ آر تلک دار ، مترجم: وجاہت مسعود)
7 ماہ قید کاٹنے کے بعد حسین شہید سہروردی کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ رہائی کے بعد ڈھاکہ میں ان کا شاندار استقبال ہوا۔اب وہ بحالی جمہوریت کے لیے سرگرم ہوئے۔ قومی جمہوری محاذ قائم کرکے ایوب مخالف سیاسی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے کرنے کی سعی مشکور کی۔ ایوب خان کے معتمد خاص الطاف گوہر کے بقول ’رہا ہوتے ہی انہوں نے جمہوریت کے احیاء کے لیے ایک ملک گیر تحریک شروع کر دی جو خیبر سے چاٹگام تک پھیل گئی۔‘
سہروردی نے ملک کے مختلف حصوں میں دورے کر کے عوام کو بیدار کیا۔ اس سے ایوب حکومت جزبز ہوئی۔ سہروردی کی مشکیں کسنے کے لیے آرڈیننس جاری ہوئے، ادھر دل کے دورے سے ان کی صحت ابتر ہوئی ۔علاج کے لیے باہر جانے پر حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ انہیں دیس کا رخ کرنے سے باز رکھنے کے لیے ڈرایا دھمکایا جاتا رہا لیکن وہ پاکستان پلٹنے کے ارادے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ افسوس، ان کی صحت نے انہیں اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ زندہ سلامت وطن لوٹ سکیں اور وہ پانچ دسمبر 1963 کو بیروت میں انتقال کر گئے۔
ان کے جانے سے صدر ایوب خان کی ایک قوی حریف سے جان چھوٹ گئی، اس سے قبل بھی ان کے سیاسی عزائم میں رکاوٹیں دور ہوتی رہی تھیں، سیاست میں ان کی گہری دلچسپی کا اندازہ سب سے پہلے قائد اعظم نے لگایا اور یہ آرڈر پاس کیا؛
“میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں۔ وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے۔ اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔” (بحوالہ قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل از قیوم نظامی)
ایوب کے خلاف تادیبی کارروائی کے بعد بانی پاکستان زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ لیاقت علی خان کی موجودگی میں بھی وہ پر پرزے نہیں نکال سکتے تھے۔ 1951 میں ان کے قتل کے بعد ایوب خان کی سیاسی پوزیشن بتدریج مضبوط ہوتی گئی جس میں سیاست دانوں کا بھی قصور تھا جنہوں نے انہیں وفاقی کابینہ کا حصہ بنایا اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع کی۔ 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا نے مارشل لا لگا کر ایوب خان کو پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور پھر وزیراعظم مقرر کیا ۔ 27 اکتوبر کو ایوب خان نے جرنیلوں کو ایوان صدر بھیج کر اسکندر مرزا سے زبردستی استعفیٰ لیا اور چند دن بعد انہیں ملک بدر کر دیا۔
حسین شہید سہروردی کو انہوں نے رستے سے کیسے ہٹایا اس کی کہانی آپ اوپر پڑھ ہی چکے ہیں۔ سہروردی کے بعد کوئی اس مرتبے اور جرات کا حامل سیاست دان میدان میں نہ رہا اسی لیے صدارتی انتخابات میں ایوب خان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے فاطمہ جناح کو راضی کیا جن کی ملک کے دونوں حصوں میں پذیرائی دیکھ کر ایوب خان حیران رہ گئے۔
مادر ملت کو ہرانے کے لیے انہوں نے مذہبی کارڈ سے لے کر کردار کشی تک ہر اوچھا وار کیا، اگر وہ الیکشن (2 جنوری 1965) بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوتا اور اس کا الیکٹورل کالج بنیادی جمہوریت کے 80 ہزار اراکین تک محدود نہ ہوتا تو فاطمہ جناج تمام تر دھونس اور دھاندلی کے باوجود جیت جاتیں، ایوب خان نے جیسے تیسے کرکے کامیابی حاصل تو کر لی لیکن ان کے اقتدار کی چولیں محترمہ فاطمہ جناح نے ہلا کر رکھ دی تھیں۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پر ہمارے ہاں عام طور پر جب بات ہوتی ہے تو بحث یحییٰ خان کے دور سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔میرے خیال میں اس میں ایوب خان کے فوجی راج کے ساڑھے دس سال کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کیونکہ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بیش تر اسباب کے ڈانڈے اسی دور سے ملتے ہیں جس کے ایک بہت اہم پہلو یعنی حسین شہید سہروردی کو سیاست سے آؤٹ کرکے جیل میں ڈالنے کے اثرات کے بارے میں ہم نے توجہ دلائی ہے۔
اسی طرح جنرل یحیٰی خان کے سلسلے میں بھی جنرل ایوب خان بری الزمہ نہیں کہ وہ ان کے منظور نظر جرنیل تھے، صدر ایوب خان نے مستعفی ہونے کے بعد اپنے بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کی اور اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا تھا اور ملک میں استحکام لانے کا دعوٰی کر کے آنے والے طالع آزما کے دور میں ہی ملک دو لخت بھی ہوگیا تھا۔