چلتی سڑک پہ ایک کار سوار کو معمول کے مطابق ایک جگہ گاڑی کی رفتار کم کرنا پڑی۔ اگلے ہی لمحے پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار نے ٹکر دے ماری۔ حالانکہ غلطی پیچھے سے آنے والے ڈرائیور کی تھی لیکن وہ آناً فاناً گاڑی سے اترا اور پے در پے اگلی گاڑی والے کو موٹی موٹی گالیاں اور چپیڑیں رسید کر دیں۔
جواباً اگلی گاڑی والا ڈرائیور، جو کہ ایک شریف آدمی تھا، اس نے بھی ایک آدھ گالی دے دی۔ سڑک پہ تماشا لگا تو پولیس نے مداخلت کی اور دونوں کار سواروں کو تھانے لے گئی۔ اب اگلی گاڑی والا تھانے میں معاملے کی وضاحت کرنا چاہتا تھا کہ غلطی میری نہیں، اس شخص کو آگے دیکھنا چاہیے تھا اور سپیڈ لمٹ کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔
دوسری جانب ٹکر مارنے والا ڈرائیور جو کہ ایک بدمعاش آدمی تھا، اس کو معاملے کی جزیات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ وہ مسلسل ایک ہی بات دہرائے جا رہا تھا کہ، ‘اس نے مجھے گالی دی، اس نے مجھے گالی دی، اس نے مجھے گالی دی’۔ یہ بات اس نے اتنے تواتر سے کی کہ اسٹیبلش ہو گیا کہ اگلی گاڑی کے ڈرائیور کے گالی دینے کی وجہ سے معاملہ یہاں تک پہنچا۔ تھانیدار نے بھی شریف آدمی کو چپیڑ رسید کر دی کہ تم نے گالی کیوں دی، جواباً شریف آدمی منہ ہی منہ میں کچھ ممیا کے رہ گیا۔
تھانیدار نے حکم صادر کیا کہ شریف آدمی، بدمعاش کا نقصان پورا کرے۔
شریف اور بدمعاش میں بنیادی فرق کمیونیکیشن کا ہوتا ہے۔ شریف آدمی ہمیشہ بات کو سیاق و سباق کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہے لیکن عام لوگ تفصیلات سننا پسند نہیں کرتے۔ جبکہ بدمعاش ون لائنرز بولتا ہے اور لوگ اس کی بات سن اور سمجھ لیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد وہ اپنے ون لائنرز کو اتنی بار دہراتا ہے کہ بات ثابت ہو جائے۔
گزشتہ کچھ دنوں سے ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاح کافی سننے کو مل رہی ہے۔ اس دہشت گردی کی کمیونیکیشن سٹریٹجی کو اگر دیکھا جائے تو اس میں بنیادی چیز ون لائنرز اور ان کی دہرائی ہے۔ اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے کبھی ہتک عزت کا قانون مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور کبھی انٹرنیٹ فائر وال کی باتیں کی جاتی ہیں جو ہمیشہ کی طرح سے فلاپ آئیڈیاز ہیں۔
سب سے ضروری چیز جو ہمارے معاشرے میں مسنگ ہے وہ قانون کی عمل داری ہے لیکن قانون چونکہ اس ملک میں کسی شخص کی ترجیح نہیں، اس لیے اس پر بات نہیں ہوتی۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ شاعر احمد فرہاد نے آزاد کشمیر میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کے دوران وہاں 13 لوگوں کی ہلاکت کی جھوٹی خبر ٹویٹ کی۔ اب بجائے اس کے، کہ ان کے خلاف پرچہ درج کر کہ درست طریقے سے قانونی کاروائی عمل میں لائی جاتی اور جھوٹی خبر پھیلانے کا جرم ثابت کیا جاتا، ان کو غائب کر دیا گیا۔ اب جرم کی سزا تو کیا ملتی الٹا اس شخص کو ہیرو بنا دیا گیا۔ بالکل ایسے ہی 9 مئی کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف باقاعدہ تیزرفتار اوپن ٹرائلز کی بجائے، ان میں سے بعض افراد کو غائب کر دیا گیا، اور کچھ بااثر لوگوں کو دباؤ میں آ کر ضمانتوں پہ رہا کر دیا گیا جس سے معاملہ بے حد مشکوک ہوگیا۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ایک سیدھے سادھے قابلِ ثبوت مقدمے کو عجیب و غریب اقدامات سے مشکوک کیوں بنایا جاتا ہے؟ قانونی راستہ اختیار کرنے کے بجائے غیر قانونی اقدامات کیوں جاتے ہیں؟
اس کا جواب ممکنہ طور پر یہ ہو سکتا ہے کہ ذہنی طور پر ہم آج بھی ایک جاگیردارانہ معاشرے میں زندہ ہیں جہاں طاقتور جاگیردار جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اپنے بدمعاش بھیج کر اس بندے کو پھینٹی لگواتا ہے۔ کوئی عدالت نہیں لگتی، جہاں دوطرفہ دلائل کے بعد شواہد کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔ ہمارا عدالتی نظام اس لیے درست نہیں کیونکہ اسے ٹھیک کرنا کسی کی ترجیح نہیں۔ خود عدلیہ میں بھی اسی جاگیردار ذہنیت کے حامل اشخاص ہیں جن کا مسئلہ انصاف نہیں، پسند نا پسند ہے۔
ویسے تو تمام انسانوں میں بخل جان، یعنی اپنی جان بچانے کا عنصر پایا جاتا ہے، لیکن بدمعاش لوگوں میں یہ عنصر عام لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ایک جاگیردارانہ ذہنیت کے معاشرے میں کسی شریف آدمی کی انصاف کی طلبگار، ممیاتی ہوئی زبان سے واقعے کی ساری تفصیلات نہیں سنی جاتیں بلکہ ایک بدمعاش کی اونچی آواز اور بار بار الزامات کی تکرار حاوی ہو جاتی ہے۔